خان حسنین عاقب کی ”آسماں کم ہے“
فردوس انجم، بلڈانہ مہاراشٹر
خان حسنین عاقب آسمان ادب کا وہ درخشاں ستارہ ہے جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی روشنی ہر سو بکھیرتا ہے۔آپ شاعر محقق تنقیدنگار مترجم اور ایک کثیر لسانی ادیب ہونے کے ساتھ بچوں کے لیے بھی نثر اور نظم دونوں میں صحت مند ادب تخل ق کررہے ہیں۔بچوں کے لیے آپکی لکھی کہانیاں اور نظمیں رسائل و جرائد میں شآع ہوتی رہتی ہیں۔ حسنین عاقب نے بچوں کے لیے نہایت اہم کتابیں بھی مرتب کی ہیں جو درج ذیل ہیں1۔ شفیع الدین نیر کی کہانیاں2۔ شفیع الدین نیر کی نظمیں 3۔ تین شاعر ( سیماب، ساحر اور ابن انشاء)4۔ غالب کی کہانی نیر کی زبانی ( غالب کی سوانح )کتاب "آسماں کم ہے "خان حسنین عاقب کی بچوں کی لیے لکھی گ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔خان حسنین عاقب کا تخلیقی سفر قابل ستائش ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ جو اردو ادب کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ عہد جدید میں ادب اطفال کے متعلق سوچا جآ تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ عہد حاضر میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تخلیقات میں روایتی اور مافوق الفطرت موضوعات سے زیادہ موبائل ، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ،جدید سائنسی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو ظاہر کرنے والی کہانیاں تخلیق کریں۔ آج کا دور Digital دور ہے وہی یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ آج کے بچے بھی Digital ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے سامنے محض ایک بٹن دبا کر ہزاروں کاموں کو ایک وقت میں ایک ساتھ انجام دیتے ہو دیکھ رہے ہیں ۔ ایسے میں ادب برائے اطفال آج کے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ خان حسنین عاقب نے " آسماں کم ہے" میں پوری کوشش کی ہے کہ کہانیاں سائنسی معلومات سے لبریز ہو۔ اس میں کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ، موبائل وغیرہ کی معلومات ہو۔ جیسے کہانی " ٹکنالوجی کی نئی دنیا " میں انھوں نے اسمارٹ فون کے متعلق تفصیلی معلومات دینے کی کوشش کی ہیں۔ اس میں انھوں نے بتایا کہ Processor Core اور Giga Hertz کیا ہوتے ہیں ؟ ان کا استعمال ، کام وغیرہ کے بارے میں دلچسپ معلومات موجود ہے تو وہی مختلف کمپنیوں کے نام بھی بتائیں ہیں جو Processors بناتی ہیں۔ اسی طرح " تپش پیما چرند " ، " ننھا منا پی۔ڈی", " آفت کی پڑیا " وغیرہ میں بھی سائنسی معلومات پر مبنی کہانیاں ہیں۔ ساتھ ہی ان کہانیوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال کے فوائد اور نقصانات کو بھی نہایت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بچوں کا ادب تخلیق کرتے وقت ان کی عمر ، زبان ، نفسیات ، موضوعات وغیرہ کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔ آسماں کم ہے " میں خان حسنین عاقب نےبچوں کی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے۔ چونکہ موصوف معلم ہیں اور ماہر درسیات و تدرسیات بھی ہیں اس لیے آپ نفسیات کے اصولوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ جس کی جھلک " آسماں کم ہے" میں صاف طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔ تمام کہانیاں بچوں کی عمر ان کی نفسیات کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں۔ زبان کے متعلق بات کی جائے تو مجھے لگتا ہے کہ تخلیق کار نے بچوں کی عمر اور ان کی سمجھنے کی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر زبان کا استعمال کرنا چاہیے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے پاس ذخیر الفاظ کم ہوتا ہےاس لیے تخلیق کار کو بھی حسبِ ضرورت سادہ عام فہم لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے ہی ان کے لیے ادب تخلیق کرنا چاہیے البتہ یہ لازمی ہے کہ بچوں کو ن ےاور مشکل الفاظ سے بھی متعارف کروایا جآیں تاکے وہ انہیں استعمال کرنا سیکھیں۔ " آسماں کم ہے " میں خان حسنین عاقب نے نہ ان باتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ کہانیوں کی زبان سادہ صاف اور سلیس ہے۔بچے فطری طور پر متجسس ہوتے ہیں۔ کچھ ن ےتجربات سے گزرنا بچوں کو پسند ہوتا ہے۔ اسی لیے ادب اطفال میں موضوعات کی کمی نہیں ہے آسماں کم ہے" میں خان حسنین عاقب نے اخلاقی، معلوماتی، سائنسی، تاریخی اور جغرافیائی وغیرہ موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ " ایسے سخی تھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم" ، " شیخ سعدی، ایک دینار اور تین بھوکے ", سچی عید " وغیرہ اخلاقی درس سے مزین کہانیاں ہیں۔ " فرمان کی ہوم لایبریری" ،" کہانی نظم ،نظم کی کہانی", " فیصلہ"، سانپ : دوست بھی دشمن بھی " وغیرہ معلوماتی کہانیاں ہیں۔خان حسنین عاقب چونکہ ماہر تدرسیات ہیں اس لیے وہ خوب جانتے ہیں کہ بچے کس طرح اور کن باتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ آسماں کم ہے" کی کہانیاں پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ کہانی ہمارے سامنے سنائی جا رہی ہے۔کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو انھوں نے بچوں کے ذریعے سنائی ہیں۔ " ننھا منا پی۔ڈی " بچے کے ذریعے سنائی گئی کہانی ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے :" سارے گھر میں ڈھونڈ مچی ہوئی تھی۔ ابو بہت غصے میں تھے، ان کا ننھا منا پی۔ڈی جو کھو گیا تھا۔ " پہلے ہی لفظ سے تجسس شروع ہوجاتا ہے دوسری طرف سوچ کا دائرہ پی۔ڈی پر اٹک جاتا ہے کہ یہ پی۔ڈی وہ بھی ننھا منا کیاچیز ہے ؟ اس طریقے سے بچے پر تجسس ہوکر کہانی کے اختتام تک نہیں رک سکتے۔ آسماں کم ہے " کی ایک اور خاص بات اس میں کہانیوں کی پیش کش ہے۔بچوں کے لیے ادب تخلیق کرتے وقت خیال کا اچھو تا ہونا ضروری ہے۔ تخلیق میں موزوں الفاظ کے استعمال سے قارئ ن تک ترسیل بہ آسانی اور موثر ہوتی ہے۔ خان حسنین عاقب نے اپنے خیالات کی ترسیل نہایت خوبصورت اور موزوں الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:" ہم نے جو جوابات تمہیں دئیے ہیں، وہ کائنسی معلومات پر مبنی تھے۔ اب جو معلومات ہم دے رہے ہیں ، وہ بھی سائنسی ہے۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2700 قسمیں ہیں۔ یہ رینگنے والا جانور ہے۔ اس کا خون ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یہ دھوپ میں اپنے جسم کی حرارت بڑھا لیتا ہے اور چھاو¿ں میں جاکر کم کر لیتا ہے۔ سانپ سطح زمین پر ہر جگہ یعنی جنگلات میں، سمندروں ، ندیوں اور جھیلوں میں، ریگستان میں اور درختوں پر رہ سکتے ہیں۔ البتہ سانپ انتہائی سرد جگہوں جیسے قطب شمالی ، قطب جنوبی ، آرکٹک خطہ، انتہائی اونچے پہاڑ اور انٹار کٹکا پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ آئر لینڈ اور نیوزیلینڈ جیسے جزائر ایسے بھی ہیں جہاں سانپ بالکل نہیں پآ جاتے۔ اب بولیے ، یہ معلومات کیسی رہی ؟ ہے نا بالکل ، ' کون بنےگا کروڑ پتی جیسی ؟' "معروف ادیب محمد سراج عظیم نے " آسماں کم ہے" کے فلیپ یوں رقم طراز ہیں : حسنین عاقب ادب کی دنیا میں دو خوبصورت چہروں والی شخصیت کا نام ہے۔ ایک ادب عالیہ کا وہ ناقد ، محقق، شاعر ، نثر نگار اور چار زبانوں انگریزی،فارسی، مراٹھی اور اردو پر دست راست رکھنے والا مترجم اور دوسرا ادب اطفال کے میدان کا کھلنڈرا حسنین عاقب یعنی سنجیدگی اور معصومیت کا حسین امتزاج۔جہاں حسنین نے انگریزی میں نعت کے مترادف پروفیم اختراع کی وہیں انھوں نے طفلی نظمیں بھی ادب اطفال کو دیں۔ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی ادیب بیک وقت دونوں میدانوں میں متوازن اور کامیاب ہو۔ " " آسماں کم ہے" کتاب کا عنوان ہی بچوں کو سوچنے کی ترغیب دیتا ہے کہ آسماں کم کیوں ہے؟ بس یہی سے بچہ آسماں کم ہونے کی وجہ تلاش کرتا ہوا مکمل کتاب پڑھ لیتا ہے۔ اس کا تجسس ، سوالات ، قائم رہتے ہیں اور معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی اسے لگتا ہے وہ وہاں موجود ہے تو کبھی وہ لایبریری میں خود کو پاتا ہے تو کبھی پی۔ڈی کی تلاش کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ تو کہی کسی کی مدد کو پہنچ جاتا ہے۔ یہی ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیکہ خان حسنین عاقب آسماں کو کم کرنے اور بچوں کے حوصلے بلند کرنے میں کامیاب ہو ہیں۔ کتاب سر ورق و عنوان تا فلیپ قاری کے تجسس میں اضافے کا باعث ہے۔ جس کے لیے خان حسنین عاقب مبارک باد کے مستحق ہیں۔کتاب کو خان حسنین عاقب نے نئی نسل کے بچوں کے نام منسوب کیا ہے۔ کتاب کی طباعت اور کاغذ عمدہ ہے۔سرورق جاذب نظر ہے۔128 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قمیت صرف 125 روپیے ہے۔ اہل ذوق اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔