معروف شاعر سرفراز شاکر کا انتقال
جے پور/جودھپور17فروری(پریس ریلیز)راجستھان میں جدید اردو غزل کی نمائندہ آواز معروف شاعر سرفراز شاکر کا اپنے یوم پیدائش کے ایک ہفتہ بعد 17 فروری جمعہ کی صبح جےپور میں انتقال ہو گیا۔وہ 67 برس کے تھے۔ انہیں جے پور سے ایمبولینس میں جے پور سے جودھپور لایا گیا۔انہیں جمعہ کی شام جودھپور کے سوانحی گیٹ قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ان کے جنازے میں شہر کے بہت سے شعرائ اور معزز شہریوں نے شرکت کی۔ شاکر کے انتقال سے ادبی حلقوں میں سوگ کی لہر دوڑ گیی۔مرحوم کا تعلق جودھ پور سے تھا۔ ان کی پیدائش جودھ پور ہی میں شاعر سکندر شاہ خوشدل کے یہاں 10 فروری ، 1956 ءکو ہوئی۔وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر شین کاف نظام کے شاگرد تھے۔۔ وہ نیے لب و لہجہ کےاپنی طرز کے عمدہ شاعر تھے۔ پیکر نگاری اور قدرے تجریدیت سے دلچسپی تھی۔ راجستھان اردو اکادمی نے 2000 ءمیں ان کا شعری مجموعہ "رستہ رستہ ریت" کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ ان کا کلام اردو ادب کے مقر رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔۔معروف شاعر شین کاف نظام کی ترتیب شدہ راجستھان اردو اکیڈمی سے شایع 'معاصر شعرائ یے جودھپور' کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے۔شاکر نے 1980 میں شاعری کا آغاز کیا۔ بہت سے بڑے شعرائ اور ناقدین نے ان کی شاعری کا اعتراف کیا۔
نمونہءکلام :
کوئی رہنے سدا نہیں آیا
موسموں کا گزر بسر ہے یہ
بیٹھا بیٹھا گلی میں سناٹا
چادر شب کتر رہا ہے کیا
شہر میں ایک میلہ لگا تھا کہیں
صرف بھگدڑ مچی اور سب ٹھیک ہے
تنہائی شب کی نظروں سے
پگڈنڈی کو چاٹ رہی ہے
بہت چپ چاپ ہے آکاش لیکن
یہاں پانی سنائی دے رہا ہے
گھر نہ کوئی مکان ہے بھائی
ہر طرف اک دکان ہے بھائی
غزل
سوکھ جائے گا سمندر دیکھنا
پھر مری آنکھوں کا منظر دیکھنا
خالی رہ جائے گا یہ گھر دیکھنا
جب نکل جاو¿ں میں باہر دیکھنا
نوچ کر لے جائے گا مجھ کو کوئی
تم مرے بکھرے ہوئے پر دیکھنا
وہ جو دنیا کے قفس میں بند ہیں
اڑ ہی جائیں گے کبوتر دیکھنا
سونی ہے شاکر حویلی تو مگر
چیختا ہے کون اندر دیکھنا