پارلیمانی چناﺅ کی تیاریاں اور نئی حکمتِ عملی

آئندہ 2024میں ہونے والے عام پارلیمانی انتخابات کی تیاریاںسیاسی پارٹیوں کے ذریعہ زورشور سے جاری ہیں،حکمراں پارٹی بی جے پی اورحذب اختلاف کی پارٹیاں رائے دھندگان کو راغب کرنے کے لئے ملک گیر سطح پر مہم چلارہی ہیں،کانگریس کی قیادت والی حذب اختلاف کی پارٹیوں نے حال ہی میں بنگلوراور حکمراں پارٹی بی جے پی نے اپنی حلیف پارٹیوں کے ساتھ دہلی میں میٹنگ کرکے اپنے اپنے اتحادکی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے،بنگلور کی میٹنگ میں کانگریس نے اپنی حلیف پارٹیوں کے گروپ یو پی اے کو ختم کرکے اب اس کی جگہ نیا نام” انڈیا“ دیا ہے،بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کا نام این ڈی اے ہی ہے،جہاںکانگریس کی قیادت میں نئے بنے اتحاد ”انڈیا“میں25پارٹیاں شامل ہوئی ہیں، وہیں بی جے پی کی قیادت میں 38پارٹیوں کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ،ان پارٹیوں کا اپنا کیا وجود ہے ،کیا ان کا کوئی نمائند ہ پارلیمنٹ یا کسی ریاست کی اسمبلی کا رکن ہے ؟یہ سوال لوگوں کے ذہن میں بار بار ابھر رہا ہے،اس سوال کا لوگوں کے ذہن میں ابھرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ حکمراں پارٹی کے اتحاد میں ان علاقائی پارٹیوں کی بھرمارہے جن کا اپنے اپنے علاقوں میں برائے نام ہی وجود ہے ، ان اتحادی پارٹیوں میں سے زیادہ تر پارٹیاں ایسی ہیں کہ جن کا کوئی نمائندہ پارلیمنٹ یاکسی ریاست کی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی نمائندگی تک نہیں کرتا ہے۔
گزشتہ 2019کے انتخابات میںبی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کے اتحاد کو 37فیصد اور حذب اختلاف کی پارٹیوں کو 63فیصد ووٹ ملے تھے،حذب اختلاف کی پارٹیاں بی جے پی یا این ڈی اے کے سامنے الگ الگ اپنے اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑی تھیں،اس لئے این ڈی اے کے 37فیصد ووٹ کے مقابلہ میں حذب اختلاف کا63فیصد ووٹ بری طرح سے منتشر ہوگیا تھا،اور بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی،اب این ڈی اے کے اتحاد میں جو پارٹیاں شامل ہوئی ہیں، ان میں سے زیادہ تر پارٹیاں اتنی چھوٹی ہیں کہ وہ عوام میں مقبولیت نہیں رکھتی ہیں، ان پارٹیوں سے این ڈی اے کے اتحاد میں گنتی کا اضافہ ہوا ہے،ان سے 2024کے انتخابات میں این ڈی اے کے کھاتہ میں ووٹ فیصد بڑھنے کا امکان بھی نہیں ہے،
آئندہ پارلیمانی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیںاور یہاں یہ بات غور کرنے کے قابل ہے، کہ بی جے پی یا این ڈی اے کے اقتدار میں ہونے کے باوجود یہ اتحاد صرف ملک کے 60کروڈ لوگوں پر ہی حکومت کررہا ہے،جبکہ حذب اختلاف کی پارٹیوں کا جو نیا اتحاد ”انڈیا “بنا ہے وہ ملک کی 80کروڈ آبادی کے دلوں پر راج کررہا ہے،یعنی عوام کی اکثریت حذب اختلاف کی پارٹیوں کے ساتھ ہے ، عوام کی کم حمایت ملنے یا اقلیت میں ہونے کے باوجود این ڈی اے قتدار میں آکر حکومت چلارہا ہے ،یہ جمہوریت کا دستور ہے ،اگر حذب اختلاف کی پارٹیاں متحد ہوکر 2019کا پارلیمانی انتخاب لڑتیں تو پھر اقتدار میں این ڈی اے کی جگہ یو پی اے کا اتحاد ہی ہوتا،مگر یہ سب سیاست کا کھیل ہے ،تب ایسا ہونا ممکن نہیں تھا اور اب بھی نئے بنے اتحاد ”انڈیا ”پر خطروں کے بادل منڈرا رہے ہیں،کیونکہ بی جے پی نے ان پارٹیوں کے لیڈروں کو این ڈی اے میں شامل کرنے کے لئے آپریشن شروع کردیا ہے،یہی نہیںخذب اختلاف کی پارٹیوں میں بغاوت کی چنگاریاں چھوڑے جانے کے امکان بھی بڑھ رہے ہیں،اب یہ ان پارٹیوں کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کو کیسے بچاسکتے ہیں؟
کانگریس کے اتحاد ”انڈیا“ میں شامل ہوئیں حذب اختلاف کی پارٹیوں پر بی جے پی کنبہ پروری کا الزام لگاتی رہی ہے،یعنی یہ پارٹیاں ان کے بانی کی اولاد کی جاگیر ہیں، لیکن بی جے پی کے این ڈی اے میں شامل کئی پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو بی جے پی کے الزام کے دائرہ میں آتی ہیں،ویسے بی جے پی میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے بیٹے پون سنگھ نوئیڈا سے دوسری مرتبہ اترپردیش کی اسمبلی میں رکن منتخب ہوئے ہیں،شاید بی جے پی کے رہنما اسے کنبہ پروری نہیں سمجھتے ہیں،بی جے پی نے 2014کے عام پارلیمانی انتخابات کی مہم اور اس کے بعد ”کانگریس مکت“ بھارت کا نعرہ دیا تھا،یعنی یہ پارٹی ملک کے اندر سے کانگریس پارٹی کو ختم کرکے ہی دم لے گی،لیکن بی جے پی سے ایسا ہوا نہیں ہے، الٹا بی جے پی نے کانگریس کے ہاتھوں ہماچل پردیش اور کرناٹک میں شکست کھائی ہے،گویا بی جے پی اپنے ”کانگریس مکت“ بھارت کے مشن میں فیل ہوگئی ہے، ویسے بی جے پی نے اپنے اس مشن کے تحت کانگریس میں ٹوٹ پھوٹ کرکے پارٹی کو نقصان بھی پہنچایا ہے،بی جے پی نے کانگریس کے کئی سینئر لیڈروں کو پارٹی سے توڈکر وزیر،وزیراعلیٰ اور مرکز میں وزیر بھی بنایا ہے،لیکن ملک کے طول وعرض میں پھیلی کانگریس پارٹی پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے،ہا ں یہ پارٹی ملک کو” کانگریس مکت“ کرنے کے بجائے خود ہی کانگریس لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرکے “کانگریس یکت“ بن گئی ہے،
بی جے پی کے سامنے 2024کے پارلیمانی انتخابات میں اس کے نئے کنبہ میں شامل ہوئیں چھوٹی علاقائی پارٹیاں پریشانیاں کھڑی کرسکتی ہیں،این ڈی اے کے اتحاد یا یوں کہیں کہ اس کے کنبہ کی زیادہ تر پارٹیاں ایسی ہیں جو آج تک ایک رکن اسمبلی تک نہیں جتا پائی ہیں ،مگر وہ پارلیمانی انتخابات میں پارلیمنٹ کے ٹکٹوں کی زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ رکھیں گی ،جبکہ بی جے پی کے پاس پہلے سے ہی امیدواروں کی بھرمار ہے،اگر بی جے پی اپنی پارٹی کے لیڈروں کے ٹکٹ کاٹ کر اتحادی پارٹی کے امیدوار کو دیتی ہے تو اس سے بی جے پی کے ٹکٹ مانگنے والے لیڈر ناراض ہوںگے اور وہ اتحادی پارٹی کے امیدوار کو ہرانے میں لگ جائیں گے،اور اگر اتحادی پارٹی کے امیدوار کو این ڈی اے کی طرف سے ٹکٹ نہیں دیا گیا ،تو اس سے اتحادی پارٹی کے لیڈر بغاوت پر اتر کر آئیں گے اور بی جے پی امیدوار کو ہرانے کی کوشش کریں گے ،اس طرح سے دیکھا جائے تو2024کے عام پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے کو حذب اختلاف کی پارٹیوں کے مقابلہ زیادہ پریشانیوں کا سامنا رہے گا،بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کے مقابلہ کانگریس کی قیادت والے “انڈیا“کو ایسی کسی بغاوت اور پریشانیوں کا کم سامنا رہے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اتحاد میں شامل سبھی پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں مضبوط حالت میں ہیں،یا تو وہ اپنی ریاست کے اقتدار میں ہےں یا پھر اختلاف میں ،بہر حال اس اتحاد کی پارٹیوں کے پاس ان ریاستوں میں رکن اسمبلی بھی ہیں اور رکن پارلیمنٹ بھی ہیں ،کانگریس کے ذریعہ بنائے گئے ”انڈیا“اتحاد کی یہی مضبوطی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ 2024میں ہونے والے عام پارلیمانی انتخابات میں این ڈی اے کو انڈیا پر برتری حاصل ہوتی ہے یا انڈیا کواین ڈی اے پر برتری حاصل ہوتی ہے ۔
(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)