اعتراض دراعتراض

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر 

اعتراض کرتے ہوئے فرماں برداری پر قائم رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔اسی صفت کوفرشتوں سے مستعارلے کر اردو ادب کی مسلمہ شعریات پر اعتراض کیاجارہاہے۔ اس اعتراض پر کسی کواپناکوئی اعتراض درج کرانا ہوتو وہ ایسا ضرور کرے۔ ادب کے صفحات حاضر ہیں۔ پولیس اسٹیشن میں بھی صفحات ہوتے ہیں ، وہاں کے صفحات پر اعتراض درج کرانے سے پرہیز کریں ۔وہاں اعتراض درج کروانا شرفا کاکام نہیں ہے۔ آئےے اعتراض بلکہ اعتراضات کی طرف آتے ہیں۔ 

غالب نے کہاہے 

نکلناخلدسے آدم کاسنتے آئے تھے لیکن 

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے 

اعتراض :۔ غالب کے اس شعر میں بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن چوں کہ چچا غالب نے ےہ بات کہی ہے اسلئے کہیں نہ کہیں ٹیڑھ ہوتی ہی ہے۔ یہ ٹھےک ہے کہ شعر میں ابوالاجساد حضرت آدم علیہ السلام کاجنت سے نکلنے کاذکر سرسری طریقے سے کیاگیاہے جس میں بظاہر ان کااحترام پوشیدہ ہے ۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام ہی ”بڑے بے آبرو“ ہوکر نکلے تھے بلکہ آدم وحوا دونوں کے ساتھ بیک وقت یہ حادثہ ¿ عظیم پےش آےاتھا۔ اسلئے حضرت آدم کا ذکر کرنا اور اماں حوا کو چھوڑ دینا ، اماں حوا کے ساتھ امتیاز برتنا ہے۔ دہلی کے مغل معاشرے کے اشراف ، اجلاف اور ارذال ان تینوں Catogary میں سے کسی نہ کسی کااستعمال چچا غالب نے اس شعر میں کیاہے۔ باواآدم پر جوگزری وہ کچھ نہیں اور خود پر گزرے تو اس کااظہار”بڑے بے آبرو“ کہہ کر کیاجارہاہے۔ یعنی آدم اور حوا دونوں”ذرا بے آبرو “ہوئے ہیں ۔اسی کو کہتے ہیں اپنے کو آپ دوسرے کو تو ۔یہ خوچچاغالب میں شاید کچھ زیادہ ہی تھی۔ 

حیانہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی 

خداکرے کہ جوانی تری رہے بے داغ 

اعتراض :۔ علامہ سرمحمد اقبال کی شاعری پر اعتراض کرنے والے بہت سے مل جائیں گے۔ ان میں ہمیں بھی جوڑ لیں ، شامل نہ کریں ۔ ہم دراصل ان کے اور ان کی شاعری کے مداح ہیں لیکن پھر بھی سمجھ میں نہیں آتاکہ زمانے کی آنکھ میں اگرحیانہیں ہے تو جوانی کس طرح بے داغ رہ سکتی ہے ۔ 1938سے پہلے کی یہ شاعری ہے۔اپنی موت کے 85سال بعدبھی آج اقبال زندہ ہوتے اور پےداہونے سے پہلے اور بعد موبائل پکڑ کر زندگی کرنے والے بچوں کودیکھتے تو جوانی کی نہیں اس کے بچپن کو بے داغ رکھنے کی دعا مانگتے ۔ لیکن پھر بھی ہمارا اعتراض رفع کون کرے گا کہ زمانہ بمعنی خدا اگر لیاجائے تو ایک کی نہیں بے شمارنوجوانوں کی جوانی کس طرح بے داغ رہ سکتی ہے۔ اور پھر یہ اکیلے شخص کے لئے دعا کرنا اقبال جیسے فرد کو زیب نہیں دیتا۔ زمانہ ایک طرف اور زیر دعا شخص ایک طرف ۔ کیابات ہوئی اور کیوں ؟ 

 جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر ےہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟

اعتراض :۔ سوالات کرنے کی عادت جس کسی کو ہوتی ہے وہ انتہائی شرارتی ہوتاہے ۔ بھلے بچہ ہویا عمردرازشخص۔ عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ پروفیشن اور خدمات کی بھی قید نہیں ہوتی۔دہلی اور لکھنو¿ جیسے ادبی شہروں کی قید بھی غیرضروری ہوگی۔ جوصحافی سوال اٹھائے گا اورجو شاعر اپنی شاعری میں سوالیہ نشان ڈال کر مصرع کو چھوڑ دے گا (اگر سوالیہ نشان غائب بھی کردے تب بھی) وہ خطرناک ہوتاہے۔ اس کو قاعدہ ءکلیہ مان لیں۔ 

خداسے کچھ پوچھنے کاحق صرف موسیٰ علیہ السلام کوحاصل ہے۔ چچا غالب بھی اگر موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کرنے لگ جائیں تو بات کس طرح بنے گی ۔ زندگی ایک سیٹSeat دیتی ہے اسی پرتمام عمر بیٹھے رہنا چاہےے۔ دوسروں کی نشستوں پر قبضہ کرنے کی عادت ٹھیک نہیں ۔ بھئی ! ہنگامہ کیاہے کہہ کرچچا کو خاموش ہوجاناچاہےے تھا۔ دلیل دیتے ہوئے سوال کرنا کہ تیرے سوا کوئی موجود نہیں ہے پھر ےہ ہنگامہ کیوں ہے اے خدا؟ اب بولئے سوال کرتے ہوئے اپنے دائرہ سے باہر چچاغالب نکلے کہ نہیں ؟اسی لئے ان کے باواآدم کو خلد سے نکالاگیا۔ کہیں نہ کہیں نقصان پہنچانا چچا کی سرشت کاحصہ ہے۔