مولانا محمد الیاس صاحب اثریؔ رحمہ اللہ
عبدالحفیظ ندوی
بڈھی خاص ، بسکوہر بازار سدھارتھ نگر یو پی
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
آج۱۵/اگست ۲۰۲۳ء بروز منگل پورے ملک والوں کے مسرت و شادمانی کا دن ہے ۔جشن آزادی کی تقریب منعقد کرکے ہر محب وطن مسرور وشاداں ہے ۔ صلوۃ عشاء کی ادائیگی کے بعد گھر آیا اور اپنے بیٹے ڈاکٹر رضوان سلمہ اور اپنے داماد جناب عبداللطیف صاحب کے ساتھ کھانا تناول کیا ، ابھی ہم لوگ بستر پر دراز ہونا ہی چاہتے تھے کہ ڈاکٹر سلمہ نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ مولانا محمد الیاس اثری ؔصاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ حادثہ میرے لئے حد درجہ لرزہ خیز تھا اس کو میں اپنا ذاتی حادثہ قرار دیتا ہوں کیونکہ چار دہائیوں تک قائم رہنے والی رفاقت ختم ہوگئی ،اس حادثہ نے مجھے پوری رات سونے نہ دیا ، زبان پر دعاء مغفرت جاری رہی ، ایسی صورت میں زبان سے وہی الفاظ نکل رہے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر کہہ رہے تھے ۔ للہ ما أعطی ولہ ما أخذ ولا نقول الا ما یرضی ربنا
سویرے ستاروں کی شبنم کہاں ذرا دیر میں تم کہاں میں کہاں ( بشیر بدر)
مولانا موصوف کے تعلق سے جو نقوش ذہن میں محفوظ ہیں اپنی تحریر کے ذریعہ نمایاں کرنے کی سعی کررہا ہوں ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے دنیامیں جو آیا ہے اسے یہاں سے جانا ہے لیکن وہ ہستیاں خوش نصیب ہوتی ہیں جن کی زندگیاں اور صلاحیتیں دین کی راہ میں صرف ہوتی ہیں ، ایسے لوگ جب دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ان کی مساعی جمیلہ، ان کی یاد ، ان کا کردار ، ان کی خدمات اور ان کے کارناموں کے نقوش دلوں میں ثبت رہتے ہیں ۔
مولانا موصوف کی ذات گرامی جن سے راقم کے دیرینہ تعلقات تھے جن کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی وہ قابل قدر اور قابل فخر تھی ۔
نہ چھیڑ ان کے تصور میں اے بہار مجھے کہ بوئے گل بھی ہےا س وقت ناگوار مجھے(جگر مرادآبادی)
یاد آتے ہیں مجھ کو کچھ فسانے ، وہ انجمنیں وہ آستانے وہ صحن چمن، وہ آشیانے، وہ باغ و بہار کے زمانے
پیدائش و تعلیم : آپ موضع بڈھی خاص ، بسکوہر بازار ، ضلع سدھارتھ نگر کے رہنے والے تھے ، آپ کی پیدائش تقسیم ہند سے غالباً سات آٹھ سال قبل ہوئی ، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب مدرسہ عربیہ قاسم العلوم میں حاصل کی ، مزید حصول تعلیم کی خاطر جامعۃ التوحید (مدرسہ اتحاد قوم) مینا عید گاہ تشریف لے گئے اور پھر ۱۹۶۹ء میں جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار بلرامپور میں اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے داخلہ لئے ، اس کے بعد جامعہ دار الحدیث مئو ناتھ بھنجن اعظم گڑھ وارد ہوئےاور وہاں کے مؤقر اساتذۂ کرام سے کسب فیض کی خاطر ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔
درس وتدریس: مئو سے وطن واپس آنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز ضلع بلرامپور کے ایک گاؤں جھوّوا کے مکتب سے درس و تدریس کے ذریعہ کیا ،پھر اپنے علاقہ کے ایک قدیم ،معروف و مشہور قصبہ بسکوہر بازارمیں قدم رنجا ہوئے اور جامعہ عربیہ محمدیہ بسکوہر میں تدریسی و دعوتی خدمات انجام دینے لگے جہاں مولانا عبداللہ صاحب ، مولانا ذکراللہ صاحب ذاکر ندوی ؔ اور ان کے بھائی جناب فضل اللہ صاحب کی صحبت حاصل رہی ۔ ۱۹۸۴ء میں گاؤں کی علمی درسگاہ المعہ الاسلامی سے وابستہ ہوگئے اور کئی سالوں تک ناظم تعلیمات کی حیثیت سے طالبان علوم نبوت کو اپنے علم وفن اور اچھی تربیت سے فیض پہونچاتے رہے ، رفتہ رفتہ خیالات و رجحانات میں تبدیلی آئی تو تجارت کی طرف راغب ہوگئے اور اپنے گھر پر کرانہ کی ایک دوکان کھول لی ،ساتھ ہی ساتھ چاول ، آٹا ، تیل اور روئی کی مشینیں بھی لگالئے ، اللہ تعالی نے برکت عطا فرمائی کہ اپنے تمام بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا اور آخری عمر تک اسی مقدس پیشہ سے جڑے رہے ۔
علالت : مولانا موصوف بچپن ہی سے ایک عارضہ سے متأثر رہے ، پیٹھ میں بڑے بڑے پھوڑے نکل آئے تھے ، ایک دہائی تک مسلسل علاج و معالجہ کے بعد اللہ تعالی نے شفاء عطافرمائی لیکن پیٹھ ٹیڑھی ہوگئی ، ادھر کچھ عرصہ سے فالج کے اثر نے زیادہ متأثر کیا، ممبئی میں زیر علاج رہے اور مہینوں علاج کے بعد گھر چلے آئے ۔ مگر کبھی افاقہ ہوتا تو کبھی بیماری بڑھ جاتی ۔ آخر وقت موعود آپہونچا اور ہم سب کو داغ مفارقت دے کر رخصت ہوگئے ۔
زلزلے ہیں ، بجلیاں ہیں ،قحط ہیں ، آلام ہیں کیسی کیسی دختران ما در ایام ہیں
کلبۂ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
خاندان : آپ کے والد محتر م جناب محمد یوسف صاحب اور دو چچا محمد امین صاحب اور محمد ابراہیم صاحب کاشتکاری کرتے تھے، آ پ کے والد محترم نہایت ہی جری اور بے باک انسان تھے ، حق گوئی ان کا شعار تھا ، مہمانوں کی تکریم میں بہت آگے رہتے تھے اور ان کی والدہ ماجدہ کا کیا کہنا وہ اور بھی خلیق اور مہمان نواز تھیں ، غریبوں اور ہمسایوں کی بلا تفریق مسلک و مذہب خوب خوب مدد کیا کرتی تھیں ، آج بھی جو بقید حیات ہیں ان کی اس خصوصیت کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی چار بہنیں تھیں سب سے چھوٹی بہن ہاجرہ سن بلوغت سے قبل ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں ،بڑی بہن دکتور عبیدالرحمن مدنی مدیر مرکز امام بخاری تلولی کی والدہماجدہ تھیں جو گزشتہ سال وفات پاگئیں ، ان سے چھوٹی بہن آمنہ بھی فوت ہوچکی ہیں ، ایک بہن جو چھوٹی ہیں حمیرا وہ بقید حیات ہیں ۔ مولانا موصوف کےچھوٹے بھائی جناب عبدالحی صاحب جو BSC کرنے کے بعدکچھ عرصے تک کاشتکاری کے پیشے سے جڑ ے رہے لیکن جب اس سے اکتائے تو قصبہ بسکوہر بازار میں جاکر مقیم ہوگئے اور وہاں سمنٹ ، سلیا اور کھاد وغیرہ کی دوکان ڈال لی ، نہایت ہی دور اندیش اور ذہین تھے ، پنجوقتہ نماز کے پابند تھے ڈیڑھ ماہ قبل ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہوگیا اور کچھ ہی ماہ قبل ان کی اہلیہ بھی رخت سفر باندھ گئیں ۔ اللہ ان دونوں کی مغفرت فرمائے ۔آمین
ازدواجی زندگی : مولانا محمد الیاس اثری ؔ صاحب کی سسرال موضع تھمہوا ،پوسٹ اجگرا ،سدھارتھ نگر ہے ، آپ کے خسر بڑے شریف الطبع اور نیک تھے حق گوئی اور بے باکی ان کا شعار تھا ،میری موجودگی میں کبھی کبھار ایک مربی کی حیثیت سے نصیحتیں کرتے تھے ۔
اولاد : آپ کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ۔ بیٹوں میں (۱) مولانا مشتاق احمد فلاحیؔ شیخ الجامعہ مرکز امام بخاری تلولی ممبئی (۲) مختار احمد ممبرا ممبئی میں رہ کرکاروبار کرتے ہیں (۳) ممتاز احمد جوممبرا ممبئی میںالیکٹرک شارٹ لگنے سے 2008 میں انتقال کرگئے تھے (۴) محمد احمد جو اپنے والد محترم کا پیشہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔
مولانا اور ان کی اہلیہ تیسرے نمبر کے جواں رعنا صاحبزادے ممتاز احمد کے انتقال سے ٹوٹ چکے تھے اوروہ اس حالت و کیفیت سے کیسے دوچار نہ ہوں کہ جب جواں سال بیٹے کا جنازہ اٹھے اور باپ اسے اپنے کندھوں سے اٹھا کر قبر میں اتار دے ۔ان کی حالت کیسی رہی ہوگی وہ حیطۂ تحریر سے باہر ہے ، اس شعرکے حوالے سے غم والم کا اظہار ہوسکتا ہے ۔ صبت علی مصائب لو أنھا صبت علی الأیام صرن لیالیا
پانچ بیٹیاں : (۱) ساجدہ خاتون (۲) حامدہ خاتون (۳) ماجدہ خاتون (۴) راشدہ خاتون (۵) شاہدہ خاتون الحمدللہ سبھی بقید حیات اورشادی شدہ ہیں ۔
مولانا موصوف کے بھائیوں اور بہنوں میں بڑی الفت و محبت تھی ،عمر کے اعتبار سے ایک دوسرے کا ادب و احترام کرتے تھے ، مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک بار میں نے آپ کی بہن مدینہ سے پوچھا کہ محمد الیاس گھر پر ہیں تو وہ سخت ناراض ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ ہم لوگ ان کا نام لے کر نہیں پکارتے ہیں تو تم کیسے نام لے کر پوچھتے ہو جب کبھی یاد کرو تو بڑے بابو کہہ کر پکارا کرو ۔
انجمن( اسلام کا پرچار) : جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار کی طالب علمی کے دوران ہم دونوں نے اس انجمن کا قیام کیا، جب تعطیل عام پر گھر آتے تو گاؤں اورقرب و جوار میں یکشبی دعوتی و تبلیغی اجتماع منعقد کرتے ،ہمارے ساتھ نوجوانوں کی ایک ٹیم بھی ہوتی تھی ،یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہم لوگ ذات و برادری کے خانوں میں بٹے ہوئے تھے دھوبی محلہ میں ایک پروگرام کے موقع پر دعوت کا اہتمام ہوا جس میں ہم لوگوں کے خورد و نوش کا انتظام تھا جب گھرواپس آئے اور والدہ کو معلوم ہوا کہ دھوبیوں کے یہاں کھانا کھایا ہے تو وہ جزبز ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ کیسے تم لوگ دھوبیوں کی دعوت میں شریک ہوگئے خیر یہ سب کچھ کم علمی ،جہالت اور دینی تعلیم کے نہ ہونے کی بناپر ہوا ۔ بہر حال ہم لوگ اپنی بساط بھر ترویج کتاب وسنت کرتے رہے ساتھ ہی ساتھ تعلیمی سفر بھی جاری رکھا ۔ اب بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ مولانا موصوف نے اپنے والد محترم کی فرمائش پر اس انجمن کے تحت پروگرام کا انعقاد کیا جس میں مولانا موصوف نے موت کے موضوع پر بہت پُر اثر خطاب کیا آج بھی اس کی یاد تازہ ہے، ملاقات پر جب بھی کوئی بات نکلتی تو اس کا تذکرہ ضرور فرماتے ۔
مولانا موصوف کی ایک ممتاز خصوصیت یہ تھی کہ جامع مسجد میں اگر کسی خطیب کا نظم نہ ہوپاتا تو آپ بلا کسی ہچک کے منبر پر تشریف لے جاتے اور موضوع خطابت کا حق ادا فرماتے ۔ آپ کے خطابات کے عناوین عموماً أینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ ۔یا أیھا الانسان ما
غرک بربک الکریم ۔ یاأیھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ہوتے تھے اور دیگر اصلاحی موضوعات پر آپ برجستہ خطاب کرتے ، دیہی انداز و اسلوب میں بھی سمجھانے کی کوشش کرتے تاکہ بات دلوں میں اتر جائے ۔
دین کی راہ میں مشکلات کا سامنا :
ہمارے گاؤں سے متصل ایک گاؤں ہربندھن پور ہے جہاں غیر مسلمین خصوصاً برہمنوں اور کرمیوں کی تعداد زیادہ ہے اور اورمسلمان اقلیت میں ہیں ، اس گاؤں کی دو شخصیتیں بہت متحرک اورفعال تھیں ایک محمد سلیم راعینی رحمہ اللہ اور دوسرے محمد مسلم حفظہ اللہ ۔ جناب محمد مسلم نے اپنے گھر کے برآمدہ میں پنجوقتہ نماز اور خطبہ ٔ جمعہ کا انتظام کیا تو ہم لوگ باری باری خطبہ ٔ جمعہ دینے جایا کرتے تھے تو کبھی دوسرے علماء کرام کو متعین و مامور کردیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ خطبہ ٔ جمعہ کے لئے ہم لوگ پہونچے اتفاق سے وہ دن ہولی کا تھا ، مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ خطبہ دے رہے تھے کہاچانک ہندؤوں کا ایک گروہ جو جوانوں اور بوڑھوں پر مشتمل تھا رنگ وغیرہ لے کر ہولی کھیلتے ہوئے سامنے سے گزرا اگر وہ چلا جاتا تو کوئی بات نہ تھی وضو کے لوٹوں اور مسجد کی چٹائیوں پر رنگ پھینکتے ہوئے گزرا جس کی وجہ سے ہمیں بہت افسوس ہوا اور جب نماز ختم ہوگئی تو ہم لوگ گھر جانے کو تیار ہوئے اور باہر نکلنے ہی والے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں ایک جھنڈ نعرہ لگاتے ہوئے ہم دونوں کو گھیر لیا اور رنگوں میں شرابور کردیا اور بولا کہ یہی تم لوگوں کا بدلہ ہے جو تم لوگ یہاں نماز پڑھانے آتے ہو اور اذان دے کر ہمیں تکلیف پہونچاتے ہو ۔ خیر ہم لوگ اپنے گھر آکر گاؤں کے پردھان (جو غیر متعصب، منصف اور سیکولر تھے) سے شکایت کی ،اتفاق سے اسی موقع پر جناب ماتا پرساد پانڈے سابق وزیر اور اسپیکر بھی آگئے اور سمجھانے لگے کہ جب وہاں مسلمانوں کی تعداد کم ہے تو وہاںپنجوقتہ نماز اور خطبۂ جمعہ شروع کرنے کی کیا ضرورت ہے مگر جب ہم نے اعتراض کیا تو خاموش ہوگئے ۔ مہینوں کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام بھی مکمل کرلیا گیا، صبح صبح چھت کی ڈھلائی ہونی تھی کہ فجر سے قبل ہی ہندؤوں نے آکر دیوار کومسمارکردیا ،آج بھی اس کا ملبہ اسی شکل میں موجود ہے، اللہ کی ذات سے قوی امیدہے کہ جلد ہی کوئی راستہ نکالے گا ۔ ان شاء اللہ ؎جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ماتا پرساد پانڈے کے بے تکا جواب پر میں نے کہا کہ آپ کا شمار سیکولر لیڈروں میں ہوتا ہے اس لئے آپ کی زبان سے یہ بات مناسب نہیں ہے ، ملک کا آئین سارے مذاہب کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے عقائد ونظریات کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ مولانا موصوف جو نہایت جری ونڈر تھے وہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے تھے فوراً ہی دندان شکن جواب دیا بلکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ موت تو اٹل ہے ایک نہ ایک دن آنی ہے پھر بزدلی کی موت کیوں مروں ؟
علالت: جب آپ پر فالج کا اثر ہوا تو آپ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے بمشکل ہی دس قدم چل سکتے تھے اور اس بیماری کے بعد تو ان کے اندر نمایاں تبدیلی آگئی تھی اور کچھ بجھے بجھے سے رہنے لگے تھے ساتھ ہی ما فی الضمیرکی ادائیگی سے قاصر ہوگئے تھے گویا وہ زبان حال سے یوں کہہ رہے ہوں۔
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں ، جینے کی تمنا کون کرے ؟ یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے ؟
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کوتھی ؟اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے ؟
۱۵/اگست ۲۰۲۳ء بروز منگل رات تقریباً۱۰ بجے رحلت کر گئے ، آپ کے تمام صاحبزدگان اور بیٹیاں وفات کے وقت گھر پر موجود تھیں، شایدایک بیٹی اڑیسہ رہتی تھی جو ایک دن کے بعد آئی ۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا مشتاق احمد فلاحیؔ شیخ الجامعہ مرکزامام بخاری تلولی بھیونڈی مہاراشٹرنے پڑھائی ۔بفضل الہی تمام رشتہ دار ، أحباء و أقرباء اور گاؤں کے علاوہ قرب وجوار کے لوگ جنازہ میں شریک رہے۔
مولا نا کی وفات سے اداسی چھائی ہوئی ہے ،فضا سوگوار ہے ۔
جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
اللہ رب العالمین موصوف کی بخشش فرمائے ،آپ کے حسنات کو قبول فرماکر رفع درجات کا ذریعہ بنائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔ اللھم اغفر لہ وأرحمہ وأدخلہ فی الفردوس جناتہ
یہ چند سطور بھی قلم بند کرنے کی ہمت نہیں ہوپارہی تھی ، لیکن مولانا موصوف کے بیٹوں کی مجلس میں بیٹھ کر ایسی ہی کچھ گفتگو چل پڑی اور اسی گفتگو نے میرے دل کے ساز کو چھیڑ دیا کہ جس کی وجہ سے یہ چند سطور حوالہ قلم کرکے حق رفاقت ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے