لکھنؤ،18 فروری (ایجنسیاں)اتر پردیش اسمبلی میں آج اردو اور انگریزی کے مسئلے پر گرما گرم بحث دیکھنے کو ملی۔ اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے اسمبلی میں مطالبہ کیا کہ انگریزی کے بجائے اردو کو فلور لینگویج بنایا جائے۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ انگریزی کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے جبکہ اردو کو وہی حیثیت نہیں دی جا رہی جو دوسری زبانوں کو حاصل ہے۔ماتا پرساد پانڈے نے مزید کہا کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں لوگ اردو بولتے ہیں، اس لیے اسے اسمبلی کی کارروائی میں شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ انگریزی نہیں جانتے، اس لیے انگریزی کو مسلط کرنا غیر مناسب ہے۔ ان کے اس مطالبے پر سماجوادی پارٹی کے اراکین نے بھی حمایت کا اظہار کیا اور حکومت کے رویے پر اعتراض کیا۔اس بحث پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور سماجوادی پارٹی کو نشانے پر لیا۔ انہوں نے کہا کہ سپا کے لوگ اردو کی وکالت تو کرتے ہیں مگر مقامی زبانوں جیسے کہ بھوجپوری، بندیلی اور اودھی کی حمایت نہیں کرتے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سماجوادی پارٹی اردو کو تو فروغ دینا چاہتی ہے مگر مقامی زبانوں کے لیے آواز نہیں اٹھاتی۔یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ سماجوادی پارٹی کا رویہ دوہرا ہے۔ ان کے مطابق، “یہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں مگر دوسروں کے بچوں کے لیے اردو کی وکالت کرتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کے بچے اردو پڑھ کر صرف مولوی بنیں جبکہ ان کے اپنے بچے انگریزی پڑھ کر آگے بڑھیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ “یہ لوگ ملک کو سخت گیر مذہبی نظریات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔”وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے بھوجپوری، اودھی اور بندیلی زبانوں کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور ان زبانوں کے تحفظ کے لیے اکیڈمیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “دنیا کے مختلف ممالک جیسے ماریشس اور فجی میں رہنے والے ہندوستانی اودھی بولتے ہیں، یہ ہماری شناخت کا حصہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”بحث کے دوران ماتا پرساد پانڈے نے دوبارہ اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اردو بھی یوپی کی ایک بڑی زبان ہے اور اس کے بولنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم صرف اور صرف انگریزی کے خلاف ہیں، کیونکہ یہ ہم پر زبردستی تھوپی جا رہی ہے۔”یہ معاملہ اسمبلی میں کچھ دیر تک بحث کا موضوع بنا رہا، تاہم حکومت نے واضح کیا کہ وہ مقامی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
، جبکہ اپوزیشن نے اردو کے حق میں آواز بلند کرنے پر زور دیا۔واضح رہے کہ اتر پردیش اسمبلی کا بجٹ اجلاس منگل کو یعنی آج شروع ہو گیا، جہاں پہلے ہی دن سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے اراکین نے زبردست احتجاج کیا۔ جیسے ہی گورنر آنندی بین پٹیل نے اپنا خطاب شروع کیا، ایس پی اراکین نے نعرے بازی شروع کر دی، جس کے سبب ایوان میں شور و غل دیکھنے کو ملا۔ احتجاج کے پیش نظر اسمبلی کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔بجٹ سیشن کے آغاز سے قبل ہی سماجوادی پارٹی کے ارکان نے احتجاج کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ وہ اسمبلی کے باہر سے ہی نعرے لگاتے ہوئے آئے اور سابق وزیراعظم چودھری چرن سنگھ کے مجسمے کے قریب جمع ہو کر مظاہرہ کیا۔ ایس پی کے ایم ایل اے اتل پردھان زنجیروں میں جکڑے ہوئے اسمبلی پہنچے، جبکہ دیگر کارکنان ہاتھوں میں تختیاں اور گھڑے لیے نظر آئے۔ گھڑوں پر ’یہ اخلاقیات کا استھی کلش ہے‘ تحریر تھا، جبکہ تختیوں پر مختلف نعرے درج تھے، جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر ریاست میں بھائی چارہ ختم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔اسی دوران سماجوادی پارٹی کے ایم ایل سی آشوتوش سنہا سائیکل پر اسمبلی پہنچے۔ ان کی سائیکل پر بھی ایک مٹکی بندھی تھی، جس پر ’اخلاقیات کا استھی کلش‘ لکھا ہوا تھا۔ دوسری جانب گورنر آنندی بین پٹیل نے اپنے خطاب میں ریاستی حکومت کی پالیسیوں اور کامیابیوں کو اجاگر کیا۔ اسمبلی کے بجٹ سیشن کو لے کر نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک نے کہا کہ حکومت ریاست کی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور اس سیشن میں کئی اہم موضوعات پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے اپوزیشن سے تعاون کی امید بھی ظاہر کی۔وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو شکست کی مایوسی میں اپنی ناراضگی ایوان پر نہیں نکالنی چاہیے ،بلکہ مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ایوان کی کارروائی احسن طریقے سے چل سکے۔ حکومت ہر سوال کا مدلل جواب دینے کے لیے تیار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی تعمیری بحث و مباحثے کا مرکز بنے۔بجٹ سیشن کے دوران 20 فروری کو مالی سال 2025-26 کا عام بجٹ پیش کیا جائے گا۔ یہ اجلاس 18 فروری سے 5 مارچ تک جاری رہے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یوپی کی تاریخ میں کم ہی ایسے مواقع آئے ہیں جب اسمبلی کو اتنے طویل وقت کے لیے طلب کیا گیا ہو۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام جماعتیں اس سیشن کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے میں کردار ادا کریں گی۔
No Comments: