انانیت انسان کی تنزلی کا پہلا زینہ ہوتا ہے: ایم ایس سر

’السبیل اکیڈمی‘کسیارگاوں ارریہ کی الوداعی تقریب سے اساتذہ کرام کا پرمغز خطاب
ارریہ ،04فروری( منصوراحمدحقانی ) تعلیم راستہ ہے، منزل نہیں، منزل تک کی رسائی تعلیم اور تربیت کے ساتھ ہی ممکن ہے، کیوں کہ تعلیم اور تربیت گاڑی کے ایسے دو پہیئے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر آگے کھسک نہیں سکتی۔ ان خیالات کا اظہارمعروف ومشہور، سی بی ایس ای سی افیلیٹیڈ اور قومی شاہراہ 57 پر واقع تعلیمی وتربیتی ادارہ " السبیل اکیڈمی کسیارگاو¿ں ارریہ کے وسیع وعریض کیمپس میں درجہ نہم ( class ix ) کے زیرِ انتظام وانصرام درجہ دہم ( class x) کے منعقد الوداعی تقریب میں موجود اساتذہ کرام، طلبہ اور طالبات کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس معاشرے میں تربیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کامیابی کی بلندیوں کو چھو نہیں سکتے ہیں۔ آپ نے طلبائ سے کہا کہ آپ کو کامیاب ہونا ہوتو آپ کو تربیت کے زیور سے مزین ہونا ہوگا۔ آپ نے اپنی بات کو اس سبق آموز شعر پر ختم کیا۔
میری بساط ہی کیا تھی مگر تمہارے لئے
اس سے زیادہ کیا جتنا اختیار میں تھا
جبکہ اس موقع پر اکیڈمی کے پرنسپل ابوذر تبسم نے کہا کہ آپ ڈاکٹر ، انجینیئر اور رائٹر کو دیکھ کران جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے پیچھے کی کڑی محنت اور جد و جہد کو بھی دیکھیں اور پورے جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ محنتوں میں لگ جائیں، ان شاء اللہ آپ کی خواہش ضرور پوری ہوگی۔ آپ نے مزید کہا کہ حالات کتنے ہی ناگزیر ہوں آپ کو سخت ہونا پڑےگا! اور اکیڈمی کے وائس پرنسپل مشتاق احمد صدیقی نے کہاکہ اسکول کی اہمیت کو سمجھیں! ، اسے کبھی فراموش نہ کریں! اپنے وقار کو باقی رکھیں!، تواضع وانکساری کو ملحوظ خاطر رکھیں!، جان لیجئے کہ دور رس اور باصلاحیت اہل علم ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں شہرت پسندی سے دور ہوتے ہیں،خاموشی کو پسند کرتے ہیں، درخت جس قدر ثمرآور یعنی پھلدار ہوگا، اسی قدر وہ جھکا ہوگا اور جس قدر وہ پھلوں سے خالی ہوگا اسی قدر اس میں لہراو¿ ہوگا، یہی مثال اہل علم کی ہے۔ دور رس باصلاحیت اہل علم ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی مسئلے میں کوئی بات کہنے سے پہلے اس کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کے علم میں گہرائی اور گیرائی نہیں وہ معمولی مسائل میں ہی اچھلنے کودنے لگتے ہیں۔ بڑی بڑی ڈینگیں مارنے لگتے ہیں مسائل کی تہہ تک پہونچنے سے پہلے ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں ، لفاظی اور چرب زبانی کا خوب استعمال کرتے ہیں ، اپنے آپ کو سب سے بلند خیال کرتے ہیں یاد رکھیں! جب انسان کے اندر انانیت کی بو سرایت کرجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ذی علم سمجھنے لگتا ہے تو یہ اس کی تنزلی کا پہلا زینہ ہوتا ہے ہبقول شاعر:-
شہرت کی فضاو¿ں میں اتنا نہ اڑو ساغر
پرواز نہ کٹ جائے ان اونچی اڑانوں میں
آپ نے طلبہ اور طالبات کو خصوصی طور پر کہا کہ علم کا بنیادی مقصد عمل ہے اس لئے عمل کو علم کی حفاظت کا سبب بنائیں مطالعہ میں وسعت پیداکریں، کیوںکہ مطالعہ سے ہی طلباءذی استعداد اور باصلاحیت بن سکتے ہیں، اس کے بغیر آپ صلاحیت سے عاری یعنی خالی ہو جائیں گے!، آپ نے آخر میں بچوں سے کہاکہ انگریزی زبان میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کریں! علمی دنیا میں جذباتیت اور غیض وغضب سے بھرا ہوا لمحہ قطعی قابل قبول نہیں ہے، سامنے والا خواہ کتنی ہی سخت بات کررہا ہو اس کا جواب سنجیدگی ومتانت سے دینے کی عادت ڈالیں!، جبکہ سائنس ٹیچر فاروق اعظم نے اپنے اظہار خیال میں کہاکہ اگر طالب علم محنت اور اساتذہ کرام کی عظمت و محبت کو حاصل کر لیتا ہے تو وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو لےگا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ ادارہ السبیل اکیڈمی ایک مشن ہے، جس کے بانی مرحوم ڈائریکٹر احتشام الحسن علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی بنیاد تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر رکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے الومنی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے خصوصی طور پر کلاس دس کے بچوں اور بچیوں سے کہاکہ آپے والدین، اساتذہ اور آپ کے اسکول کی ذرم یعنی سب کی خواہشات ا ر سبھوں کابرمان آپ کی کامیابی سے وابستہ ہیں اور اس کی تکمیل آپ ہی کی کڑی محنت سے ہی ممکن ہوگا۔ اور اپنا اظہارِ خیال بیان کرتے ہوئے بسنت کمار ٹھاکر نے کہا کہ کوئی بھی انسان اپنی ناکامی اور کامیابی کا ذمہ دار خود ہوتا ہے، اس لئے محنت اتنی خاموشی کے ساتھ کریں کہ کامیابی شور مچا دی! اور مجھے آپ آپ تمام طلبہ اور طالبات سے اس کی پوری امید ہے۔ اس موقع پر کلاس نو کے طلبہ اور طالبات کی جانب سے درجہ دہم کے تمام طلبہ اور طالبات کو مومنٹو دے کر اعزاز سے نوازا گیا۔ جبکہ درجہ دہم ( class x) کے بچوں نے "السبیل اکیڈمی" کے تمام اساتذہ کرام سمیت جملہ غیر تدریسی اسٹاف کو قیمتی تحائف اور ہدیہ خلوص سے نوازا۔اس سے قبل اس الوداعی تقریب کا بابرکت آغاز حبیب اللہ کی تلاوت قرآن سے ہوا جبکہ ارحم درجہ پنجم نے اپنی مترنم اور مسحور کن آواز میں بارگاہ نبوی میں نذرانہ عقیدت کےچند پھول نچھاور کیا جبکہ درجہ دہم کا طالب علم ثنائ اللہ نے اپنی درد بھری آواز میں وداعی گیت پیش کرکے چند لمحوں کے لئے تمام حاضرین کی آنکھوں کو نمناک کیا اور یک بیک ماحول میں سنجیدگی پیدا ہوگئی۔آخر میں مہمان ٹیچر شعیب اختر نے اظہار تشکر پیش کیا۔ اس موقع پر عبد المتین، پرویز خان قاری جنید اختر، جمشید علی جام، راحل نعیم، سوربھ کمار، بیدناتھ ساہ، رنکو رائے، محمد حضرت، مجیب الرحمٰن، نجمی خان، داو¿د عالم، عارف حسین، سنیل یادو، میتھلیس کماررام، سنیل ملک، سنجے پاسوان اور میانند پاسوان موجود تھے۔ اس الوداعی تقریب کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے علقمہ اقبال، فیضان احمد، انضمام الحق ثناءاللہ، سرتاج قدر، سرفراز عالم، آصف حسین راجا، منیرہ بیگم، آصفہ لئیق، صادقہ مظہر، خلیل اللہ، فیضان سعدی، عاقب عالم، ارمان سرور ، محمد مصدق احسن، نور حسن اور جنید اعظم وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔