نئی دہلی،17 جنوری (پریس ریلیز): آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کسی اور نہیں، خود مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، اس راہ کی مشکلات اور مسائل وہ خودحل کریں گے۔اگر کسی کے دل میں یہ خوش فہمی ہو کہ کسی فرقہ یا ملک کا مستقبل کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے ہاتھوں میں تو وہ سمجھ لے کہ وہ اپنا اپنا مستقبل بنانے میں لگے ہوئےہیں ، کوئی کسی کا مستقبل نہیں بنا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہارجمعرات کو یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب کے اسپیکر ہال میں نئی دنیا نیشنل فورم کے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے نئی دنیا کے ایڈیٹر اور سابق ممبرپارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کیا۔ “آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل ” کے موضوع پربولتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ماضی کی لکیریں پیٹنانہیں ، مستقبل کے امکانات پر مکالمہ کرنا ہےاور نئی دنیا نیشنل فورم اس کے لیے ملک کے مختلف مقامات پر سیمینارکا اہتمام کرےگا ۔سنگھ پریوار کے مشہور مفکر اور بی جے پی کےسابق ممبرپارلیمنٹ پروفیسرراکیش سنہا نےاس موقع پر کہا کہ بھارت کے مستقبل میں ہی سب کا مستقبل ہے۔ 2014 کے بعد حکومت نےجوکام کیے ہیں ،ان سے ملک کے غریبوں کو جو فائدے ہوئے ان میں 30 فیصد مسلمان شامل ہیں۔بھارت کے عظیم پریم جی کی دولت پاکستان کے 5 سب سے بڑے صنعتکاروں کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ کئی سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اپنے مستقبل کے لیےہندومسلمانوں کے درمیان زہرگھولتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یہ کہہ کر ٹی وی پر بلانا چاہتا تھا کہ میرے سامنے جومولانا ہوں گے،میں ان کے ساتھ بدسلوکی کروں۔ان کے ذریعےگودی میڈیا کی مذمت کا حاضرین نے تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ استقبال کیا۔ مسلم قیادت اپنے سماجی مسائل کو خود حل کرتی تویہ قدم ان کوکیوں اٹھاناپڑتا جبکہ کانگریس کے سینئر لیڈر، سابق مرکزی وزیر اور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کےصدر سلمان خورشید نے کہا کہ اچھی اچھی جو باتیں یہاں آج کہی جارہی ہیں ، کاش! جگہ جگہ کہی جاتیں، کرنے اور کہنے میں بڑا فرق ہے۔ میں راکیش سنہا کو مبارکباد دیتا ہوں کے انہوں نے کھل کر اپنا موقف رکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آخر کار ہم سب ایک ہیں اور ہم مل جل کر ہی اس ملک کا نرمان(تعمیر) کرسکتے ہیں۔لیکن ہمیں تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب نام پوچھ کر لوگوں کی لنچنگ کی جاتی ہے، دکھ اس کا ہے کہ مسلمانوں کے قاتلوں کو پھولوں کی مالا پہنائی جاتی ہےاور سماج میں نفرت کا زہر گھولنے کے سارے ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نئی دنیا نیشنل فورم کی اس کوشش کی تعریف کی اور اس کے صدر شاہد صدیقی کا شکریہ ادا کیا کہ وہ مختلف فکرو خیال کے لوگوں کو قریب لانے اور کھلی بحث کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔اس سے قبل آرجے ڈی لیڈر اور رکن پارلیمنٹ پروفیسر منوج جھانےکہا کہ مسلمانوں کے بغیر بھارت کی کلپنا نہیں کی جاسکتی۔اگر کوئی آج کسی ایسے بھارت کی کلپناکرتا ہے تو وہ ہندو پاکستان کی کلپنا کرتا ہے، وہ ہندوستان کے آئین میں وشواس نہیں رکھتا۔نفرت کی سیاست کو شکست دینا ہندو مسلمان سب کی ذمہ داری ہے۔ بیس کروڑ سے بڑی آبادی اگرپیچھے رہ گئی تو ہندوستان پچھڑ جائےگاجبکہ سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقراحسن چودھری نے کہا کہ اس سوال پر غور کرتے ہوئے میں نےپایا کہ ہمارے سامنے دوہرے چیلنجز ہیں ، ایک اندرونی اور دورے بیرونی، پہلے تو ہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور جائزہ لیں کہ مسلم سماج کو اپنے اندر کیا کیا اصلاح کرنی ہیں، پھرہمیں ان بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی طے کرنی ہے جو تین طلاق جیسے مسئلے پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور بدنام کر نے والوں کی جانب سے کیے جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے مسائل کا حل ڈائلاگ ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بات کرینگےاور، قریب آئیں گے تو غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ مشہور ماہرعمرانیات و سیاسیات پروفیسر ہلال احمد نے اس موقع پر کہا کہ نفرت و عداوت کے ماحول میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ملک کے 90 سے 95 فیصد لوگ مانتے ہیں کہ ملک سب کا ہے۔ اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ایسا ماننے والے لوگوں کو قریب آنا اور مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اسی طرح پروفیسر مجیب الرحمٰن نے مسلمانوں کو کھلنایک بناکر پیش کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ آسان نہیں ہے، سیاست نے اس کو پیچیدہ بنادیا ہے ۔ جبکہ انٹرفیتھ ہارمونی کونسل کے صدر خواجہ افتخار احمد نے تاریخی واقعات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا کہمسلمانوں کوآج جن حالات کا سامنا ہے، اس کے لیے جتنی ذمہ دار سیاست ہے، خود مسلم قیادتیں بھی اس سے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ مکالمے کا دروازہ کھولیں ، حالات میں تبدیلی ڈایلاگ سے ہی ممکن ہے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب کررہے تھے۔
حاضرین میں کثیرتعداد میں سیاسی و سماجی کارکنان، طلبہ، اساتذہ، نوجوان اور دانشوان شامل تھے۔ سیمینار کا اختتام پروگرام کے کنوینر شفیق الحسن کے کلمات تشکر پر ہوا جس میں انہوں نے حاضرین کو آگے بھی مکالمہ و مذاکرے کی زحمت دینے کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہےاور اسے خیال رکھنا ہوتا ہےکہ اس کا کوئی بچہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔
No Comments: