100سال پیچھے کی گھڑی: بومئی حکومت کا4%مسلم کوٹہ ختم کرناآگ کے طوفان کوچھونا ہے

100سال پیچھے کی گھڑی: بومئی حکومت کا4%مسلم کوٹہ ختم کرناآگ کے طوفان کوچھونا ہے

دیوے گوڑا حکومت کا 1994 میں '2B' زمرے کے تحت مسلمانوں کو 'سماجی اور تعلیمی طور پر' پسماندہ ہونے کے لیے ریزرویشن دینے کا اقدام ایک تاریخی عمل کا حصہ تھا جو 1918 میں میسور کی شاہی ریاست کے تحت شروع ہوا تھا۔بی جے پی کی زیرقیادت کرناٹک حکومت کے مسلم کمیونٹی کو ''2B'' پسماندہ طبقے کے زمرے کے تحت دیے گئے 4 فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے اور انہیں اقتصادی طور پر کمزور طبقے (EWS)Economically Weaker Section کے کوٹہ میں منتقل کرنے کے فیصلے نے آئندہ اسمبلی انتخابات تک ایک بڑے تنازع کو جنم دیا ہے۔ یہاں تک کہ ریاست میں مسلمانوں کو سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ کمیونٹی کے طور پر تسلیم کرنے کے معاملے پر 100 سال سے پہلے کی تاریخی گھڑی کا رخ موڑنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔بسواراج بومائی کابینہ کے 24 مارچ2023ءکے اقدام نے کرناٹک میں مسلمانوں کو ایک پسماندہ طبقے کے طور پر تسلیم کرنے کو منسوخ کر دیا ہے اور انہیں برہمنوں، جینوں، ویشیوں(Vaishyas) اور دیگر غیر پسماندہ(Non-backwards) لوگوں کے ساتھ معاشی طور پر کمزور عمومی زمرے میں رکھا ہے، جہاں وہ 10 فیصد کوٹہکے تحت دیگرطبقات سے مقابلہ کریں گے۔ 

ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے ہفتے قبل بی جے پی حکومت کے فیصلے پر اپوزیشن اور ماہرین سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے، انھوں نے اس فیصلہ کو ''غیر سائنسی''، ''فرقہ وارانہ طور پر محرک'' یا ''انتخابی چال'' قرار دیا ہے جو قانون کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ جیسا کہ بومائی نے اپنے اقدام کا اس بنیاد پر جواز پیش کیا ہے کہ ''مذہبی اقلیتوں کے لیے کسی بھی ریاست میں تحفظات کا کوئی انتظام نہیں ہے''کرناٹک میں مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر کوٹہ عام طور پر 1994 میں سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے اس وقت متعارف کرایا تھا جب وہ وزیر اعلیٰ تھے۔ تاہم، دیوے گوڑا کی زیرقیادت جنتا دل حکومت کا اس سلسلے میں مسلمانوں کے لیے ''2B'' زمرہ کی تشکیل ایک تاریخی عمل کا حصہ تھا جو 1918 میں اس وقت کی میسور کی شاہی ریاست کے دور حکومت میں شروع ہوا اور موجودہ دور تک جاری رہا۔ جس دور میں مسلمانوں کی شناخت متعدد ریاستی کمیشنوں کے ذریعہ سائنسی تحقیقات کے ذریعے ''سماجی طور پر پسماندہ'' طبقہ کے طور پر کی گئی ۔بنگلور سنٹرل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور2015میں تحریر کردہ کتاب 

Socio-Economic Conditions of Religious Minorities in Karnataka : A Study Towards Their Inclusive Development

 ''کرناٹک میں مذہبی اقلیتوں کے سماجی و اقتصادی حالات: ان کی جامع ترقی کا ایک مطالعہ'' کے مصنف پروفیسر ایس Japhet بتاتے ہیں کہ ''مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر پسماندہ طبقے کے طور پر درجہ بندی نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی پسماندگی کی بنیاد پر اس درجہ بندی میں شامل کئے گئے ہیں۔ حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی غیر سائنسی ہے اور اس بات کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آیا مسلمانوں کے بڑے حصے پسماندگی سے باہر نکل گئے ہیں۔یہ ایک چشم کشااور نظریاتی محرک پرمبنی حقیقت ہے “

آزادی سے پہلے کے دور سے ہی مسلمانوں کو کرناٹک میں ایک پسماندہ کمیونٹی کے طور پر درجہ بندی کی گئی جس میں متعدد ریاستی کمیشن قائم کیے گئے تاکہ اس طرح کی کمیونٹیز کی نشاندہی کی جا سکے اور ان کی ترقی کی راہ میں حائل سماجی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں۔پروفیسر Japhetنے مزید کہا۔”1918کے ملر پینل (Miller Panel)سے لے کر 1990 کی دہائی میںقائم او چنپا ریڈی کمیشن تک، سبھی نے مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے سماجی طور پر پسماندہ ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ پسماندہ طبقات کے 2B زمرے میں مسلمانوں کی درجہ بندی 1994 میں تاریخی نتائج کی بنیاد پر ہوئی تھی“بنگلورو میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ فار سوشل اینڈ اکنامک چینج (ISEC) کے ایک ریسرچ اسکالر اظہر خان سی اے کا کرناٹک میں اقلیتوں کی ترقی کے لیے ریاستی پالیسیوں پر 2019 کا ایک مقالہ ہے جس میں کہاگیاہے کہ ''کرناٹک تمام ریاستوں میں پہلی ریاست ہے جس نے ایک مثبت کارروائی کی پالیسی اپناتے ہوئے میسور کی سابقہ شاہی ریاست کے دور میں واپسی کی(اورمسلمانوں کو ریزرویشن دیا)۔ اس کے نفاذ کی وجہ او بی سی کی زیر قیادت غیر برہمن یا برہمن مخالف تحریکوں سے وابستگی ہے۔''آئی ایس ای سی کے تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے: ''یہ میسور کے اس وقت کے مہاراجہ کرشن راج وڈیار چہارم تھے، جنہوں نے ملر کمیٹی (1918) کی تشکیل کی اور عوامی خدمات میں کمیونٹیز کے لیے مناسب نمائندگی کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹ طلب کی۔ کمیٹی نے تحفظات، اسکالرشپ اور پبلک سروس کی تقرریوں میں پسماندہ طبقوں کے لیے عمر کی حد میں چھوٹ ، کی سفارش کی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو بھی پسماندہ طبقہ جاناگیا۔ ISECمقالہ میں ہے کہ ”آزادی کے بعد 1961 میں، آر۔ ناگن گوڑا کمیٹی جسے میسور پسماندہ طبقات کمیشن Mysore Backward Classes Commission بھی کہا جاتا ہے، نے اقلیتوں میں ذات پات کی موجودگی کو نوٹ کیا اور سفارش کی کہ ''مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کی فہرست میں رکھا جائے اور مسلمانوں کے اندر دس سے زائد ذاتوں کی شناخت کی جوانتہائی پسماندہ ہیں“اس کمیٹی کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا حکومتی حکمنامہ غلبہ حاصل کی ہوئی ذاتوں Dominant Caste کے گروہوں کے جھگڑے کے بعد قانون کے نفاذ میں ناکام ہو گیا، جس کی وجہ سے سماجی طور پر پسماندہ گروہوں کی بہتری کے لیے نئے منصوبے وضع کیے گئے۔

پہلا پسماندہ طبقاتی کمیشن برائے کرناٹک :۔ پہلا کرناٹک پسماندہ طبقاتی کمیشن یا ایل۔ جی۔ ہوانورHavanur کمیشن، جسے 1975 میں پسماندہ طبقات کے رہنما اور اس وقت کے سی ایم دیوراج ارس نے قائم کیا تھا، نے کہا کہ ذات پات کی وجہ سے پسماندگی ہندو¶ں کے لیے منفرد ہے اور یہ کہ ''عیسائیوں اور مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کے طور پر تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے، جو کہ ایک مذہبی اقلیتی گروپ کے طور پر کمیونٹی کے لیے علیحدہ تحفظات تجویز کرتا ہے نہ کہ کسی سماجی پسماندگی کی بنیاد پر جیسا کہ ہندو¶ں میں پسماندہ ذاتوں کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔تاہم دیوراج ارس نے 1977 میں دیگر پسماندہ طبقات کے تحت مسلمانوں کو کوٹہ فراہم کیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں لنگایت جیسی غالب برادریوں کے متضاد دعوے سامنے آئے، جس کے بعد ایک نیا کمیشن قائم کیا گیا۔

دوسرا پسماندہ طبقات کمیشن :۔ کرناٹک کادوسرا پسماندہ طبقات کمیشن یا ٹی۔ وینکٹ سوامی کمیشن، جسے 1983 میں رام کرشن ہیگڈے حکومت نے تشکیل دیا تھا، 1986 میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں پسماندگی کے معاشی معیار پر زور دیا گیا اور ساتھ ہی ''مسلمانوں کے لیے ریزرویشن جاری''رکھنے کی بات کہی۔ غالب ذاتیں Dominant Castes جیسے وکلیگاس اور لنگایت نے کوٹہ کے دائرہ کار سے باہر رہنے پر اعتراض کیاتھا، جس کی وجہ سے یہ رپورٹ سامنے آئی۔ 

تیسرا پسماندہ طبقات کمیشن :۔ اس کے بعد، تیسرا کرناٹک پسماندہ طبقات کمیشن یا او۔ چنپا ریڈی پینل 1988 میں تشکیل دیا گیا تھا، جس نے 1990 میں اس وقت کی کانگریس حکومت کو اپنی رپورٹ دی تھی، جس میں مسلمانوں کی درجہ بندی کو برقرار رکھتے ہوئے پسماندہ طبقے کے کوٹے سے cremy layerکو خارج کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ چنپا ریڈی پینل رپورٹ کی بنیاد پر 1994 میں اس وقت کے سی ایم ویرپا موئیلی کی قیادت میں کانگریس حکومت نے مسلمانوں کے تحفظات کے لیے ایک نیا زمرہ ''2'' بنایا، جسے بعد میں دیوے گوڑا نے جاری رکھا جب انہوں نے 1994 کے اختتام تک وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ 2019کے ISECمقالے میں کہاگیاہے کہ ''یہ خاص طور پر نوٹ کرنے کی بات ہے کہ کرناٹک کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تمام کمیٹیوں اور کمیشنوں نے واضح طور پر اقلیتوں کو پسماندہ برادریوں کے طور پر درجہ بندی کرنے پر غور کیا ہے۔ انہوں نے ایک طویل عرصے سے اقلیتوں کے نظر انداز Desolateکئے گئے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کو دستاویزی شکل دی ہے“

جنتا دل (سیکولر) کے بانی دیوے گوڑا کے مطابق، مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے فیصلہ کی ایک وجہ اس وقت کے ریاستی پولیس سربراہ کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار کا ایک ڈاٹا تھا کہ ریاست میں 0.1 فیصد سے بھی کم پولیس کانسٹیبل مسلمان ہیں ۔”کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں“ میں نے حیرت سے کہا، سابق وزیر اعظم نے 2018 میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں 4 فیصد ریزرویشن دینے کے 1994 کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

 اب اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے بومئی حکومت کے فیصلے پر دیوے گوڑا کے بیٹے اور جے ڈی (ایس) کے اعلیٰ لیڈر ایچ ڈی کمار سوامی کی طرف سے ناراضگی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ''بی جے پی حکومت ہر معاملے پر سیاست کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کابینہ کی میٹنگ کے دوران تحفظات کے نام پر ایک خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ اورکچھ ایسا کرنے کی جرات کی ہے جو ناممکن ہے۔ اپنے دور میں تین سال تک پتنگ اڑانے کے بعد کرناٹک بی جے پی حکومت نے انتخابات سے پہلے (ایسی)چالوں کا سہارا لیا ہے،'' انہوں نے الزام لگایا۔”سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوگوڑا نے مسلمانوں کو جو 4 فیصد تحفظات دیے تھے، پسماندہ طبقات کے لیے 2B زمرہ کے تحت، اسے اب معاشی پسماندگیEconomic backwardness کہا جاتا ہے۔ کمیونٹی کے ریزرویشن کوختم کردیاگیاہے۔ یہ برائی Evilکے سوا کچھ نہیں ہے،'' سابق وزیر اعلیٰ نے سوشل میڈیا پوسٹس کی ایک سیریز میں لکھا۔کمارسوامی نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی کرناٹک میں ''سماجی انصاف کو دفن کرنے'' کے لئے گراونڈ ورک کررہی ہے جب کہ کرناٹک کو ''سماجی انصاف کے لئے پورے ملک میں top Rank(اعلیٰ درجہ) پر جانا جاتا ہے“کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا نے الزام لگایا کہ بومئی حکومت کا یہ اقدام بی جے پی کی ”مذہبی تقسیم کی سیاست“ سے چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”سب سے پہلے 2Bزمرے میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کو جاری رکھا جانا چاہیے۔ آئین پر حلف اٹھانے کے بعد اقتدار میں آنے والوں کے لیے مذہب کی بنیاد پر امتیاز کرنا غیر انسانی اور غیر آئینی ہے“مسلم کمیونٹی کرناٹک کی 12 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ سی ایم بومئی نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ذاتوں کے لیے ریزرویشن برقرار رکھا جائے گا۔”ڈاکٹر امبیڈکر نے آئینی مباحثوں کے دوران دلیل دی تھی کہ تحفظات ذاتوں کے لیے ہیں، اور چونکہ ہم کمیونٹی (مسلمانوں) کو مکمل طور پر ترک نہیں کرنا چاہتے اور اسے قانونی چیلنجوں سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے ایک فعال فیصلہ لیا ہے،'' بومائی نے کہا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ان کی حکومت نے صرف مذہبی اقلیت کے طور پر کمیونٹی کے 4 فیصد ریزرویشن کو EWS زمرہ کے 10 فیصد میں ڈال دیا ہے۔بومئی نے یہ بھی کہا، ”آندھرا پردیش میں، اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کا ایک انتظام تھا لیکن اسے ہائی کورٹ نے ختم کر دیا ہے،“انہوں نے مزید کہا کہ کرناٹک میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا قانونی طور پر تقابل نہیں کیا گیا تھا۔''مذہبی اقلیتوں کے بھی معاشی حالات ہوتے ہیں۔ جب وہ (مسلمان) EWS زمرے میں جائیں گے تو ان کا بھی معاشی معیار رہے گا ،وہ بغیرکسی تبدیلی کے 4فیصد زمرے سے 10فیصد کے زمرے میں جائیں گے۔ہم مذہبی اقلیتوں کو 2B سے EWS کوٹہ میں منتقل کرنا چاہتے ہیں اور 2C اور 2D زمروں میں ووکلیگاوں اور لنگایتوں کو 4 فیصد مذہبی اقلیتی کوٹہ جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ووکلیگاس جن کے پاس 4 فیصد تھا اب 6 فیصد اور لنگایت کو 5 فیصد مل رہاتھا اب 7 فیصد ملے گا،'' بومئی نے کہا ''کیٹیگری 1 (پسماندہ ذاتوں کے لیے) میں اقلیتوں کی بہت سی ذیلی ذاتیں ہیں جیسے پنجارہ، نداف، چھپربند ۔ یہ معاشی طور پر

 غریب ہیں اور اس لیے ہم اس کوٹہ سے انہیں ہٹائیں گے نہیں اور صرف 2B کو تبدیل کیا گیا ہے۔''

کانگریس کے ترجمان رمیش بابوایڈوکیٹ نے دلیل دی کہ چونکہ ریاست میں مسلمانوں کے لیے پسماندہ طبقے کا کوٹہ تقریباً 30 برسوں سے موجود ہے، یہ ایک طے شدہ قانون ہے اور اسے سائنسی بنیادوں کے بغیر اور ریاستی پسماندہ طبقات کمیشن کی کوئی تازہ رپورٹ کی غیر موجودگی میں اس موقع پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا“بومئی حکومت سابق ایم ایل اے جے پرکاش ہیگڈے کی سربراہی میں موجودہ پسماندہ طبقات کمیشن کی عبوری رپورٹ کی بنیاد پر تحفظات کو تبدیل کرنے کے لیے آگے بڑھی ہے۔ تاہم، پینل کی عبوری رپورٹ میں مبینہ طور پر 2B کوٹہ میں کسی تبدیلی کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے، یہاں تک کہ 

اس نے اشارہ کیا ہے کہ اگلے ہفتے متوقع اسمبلی انتخابات کے اعلان سے پہلے مختلف ذاتوں اور برادریوں کی پسماندگی پر حتمی رپورٹ پیش نہیں کی جائے گی۔بومئی حکومت نے اتفاق سے ابھی تک 10 فیصد ای ڈبلیو ایس کوٹہ کو مطلع نہیں کیا ہے جو مرکز کی بی جے پی حکومت نے وضع کیا تھا۔ بومائی نے کہا کہ 24 مارچ 2023ءکا کابینی فیصلہ کوٹہ نظام میں تبدیلیوں کے لیےنوٹی فکیشن کا باعث بنے گا۔

کرناٹک میں فی الوقت موجود تحفظات ۔ ایک نظر میں 

زمرہ I - 4% - پسماندہ ذاتیں

زمرہ II (A) - 15% - دیگر پسماندہ طبقات

زمرہ II (B) - 4% - مسلمان

زمرہ III (A) - 4% - وکلیگا وغیرہ

زمرہ III (B) - 5% - لنگایت وغیرہ

درج فہرست ذاتیں - 17%

شیڈولڈ ٹرائب - 7%

کل ریزرویشنز - 56%

10% EWS کوٹہ کے اضافے کے ساتھ - 66%

تحفظات پر سپریم کورٹ کی عائد حد - 50%

تجویزکردہ تحفظات کرناٹک میں

زمرہ I - 4% - پسماندہ ذاتیں۔

زمرہ II (A) - 15% - دیگر پسماندہ طبقات

زمرہ II (B) -

زمرہ II (C) - 6% - وکلیگا (بشمول منسوخ شدہ مسلمانوں کے دو فیصد تحفظات)

زمرہ II (D) - 7% - لنگایت (بشمول منسوخ شدہ مسلمانوںکے دو فیصد تحفظات)

درج فہرست ذاتیں - %17 (6 % SC بائیں، 5.5 % SC دائیں، 4.5 % touchable، 1% دیگر)

شیڈولڈ ٹرائب - %7

EWS/مسلمان - 10%

(یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)