قیصر محمود عراقی کی مسلمانوں کو بڑی نصیحت
جس تیزی سے دنیا اپنے آپ کو بدل رہی ہے اور جس رفتار سے انسان کا سفر تیز سے تیز تر ہو تا جا رہا ہے ، اسی رفتار سے ہر معاشرے میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کی زد میں ہماری اقدار ، روایات اور رسوم و رواج بھی آتے جا رہے ہیں ۔ جس سے اس بات کا قطرہ لا حق ہو چلا ہے کہ کہیں ”آگہی “ کے اس سراب میں ہم اپنی ہر کہنہ قدر ، رواج اور روایات کو بھلا کر ایک ایسے معاشرے کا روپ نہ دھا رلیں ، جہاں ہماری پہچان ہی ختم ہو کر رہ جا ئے اور ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے بہت دور نکل جا ئیں بلکہ اتنی دور نکل جا ئیں کہ پھر خدا نخواستہ واپسی ہی ممکن نہ ہو سکے ۔
اسلام نے زندگی گزارنے کا ایک پورا ضابطہ حیات دیا ہے ، جس کو ’دین ‘ کہا جا تا ہے ۔ یہ ضابطہ حیات کیونکہ قیا مت تک کے لئے ہے اس لئے اس کے بہت سارے ضا بطے کسی پتھر کی لکیر کی طرح نہیں کھینچ دئیے گئے ہیں کہ ان سے سر مو دائیں یا با ئیں نہیں ہوا جا سکتا بلکہ اس نے زندگی گذارنے کی کچھ حدود مقرر کر نے کے بعد ہر فرد کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ان حدود میں رہتے ہوئے وقت اور حالات کے مطابق اپنے لئے جو طریقہ کا ر طے کر نا چاہے وہ طے کر سکتا ہے ۔
اسلام نے تجارت یا لین دین پر کوئی پا بندی نہیں لگائی لیکن اس کو حلال اور حرام کا پا بند کر دیا ۔ حلال و حرام کی حدود مقرر کر نے کے بعد اسے مکمل آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک ، قوم اور معاشرے کے ساتھ لین دین کرے ، اسی طرح زکوة ، صد قات ، خیرات کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتے ہو ئے اسے اجازت دی کہ وہ اپنی دولت کو جتنا چاہے فروغ دے ، گوکہ ارتکاز زر کو اسلام بہت پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتا مگر اس کو حرام بھی نہیں قرار دیتا ۔ اسی طرح وہ ستر کی حدود کا تعین کر نے کے بعد لباس کی کوئی قید نہیں لگاتا البتہ وہ اس سلسلے میں مزید دوباتوں کا لحاظ رکھنے کی ہدایت دیتا ہے ۔ ایک یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی پہچان نہ ہو ا ور دو ئم یہ کہ خواتین مر دوں کا سا اور مرد خواتین کا سا لباس نہ پہنیں ۔ کھا نے پینے پر فقط ایک قید ہے اور وہ یہ کہ حرام نہ ہو، پھر حرام ہو نے یا نہ ہو نے کی وضاحت بھی کر دی کہ گوشت میں کون سا گوشت نہ کھا یا جا ئے ۔ ذبیح میں کیا بات لا زم ہے ، حلال جا نوروں ، پر ندوں اور آبی جا نوروں کی یا تو صریح و ضاحتیں بیان کی یا پھر نشانیاں بتا کر آزاد چھوڑ دیا گیا ۔ رہا کھا نے پکا نے کے طور طریق ، ذائقے، انداز۔ تو ان سب میں ہر فرد کو اس کی مر ضی کے مطابق آزادی دے دی گئی ۔ معاشرے میں کیسے رہنا ہے ، ما ں ، باپ ، بیوی ، بچوں ، پڑو سیوں اور ریاست کے فرد پر اور فرد کے ریاست پر کیا حقوق اور فرائض ہیں ، ان سب کا ذکر کر دیا گیا ، ناپ تول سے لے کر لین دین تک کے اصول بیان کر دئیے گئے ۔ہر قسم کی دھو کا دہی ، جعل سازی ، مکر ، جھوٹ اور فریب کی مما نعت کر دی گئی ۔ ہر بات میں ایما نداری کو اپنا نے کا حکم دیا گیا ، منا فقت کو نا پسند کیا گیا ، کسی کو اذیت پہنچا نے کے متعلق سخت عذاب کی خبر دی گئی ، حق اور انصاف بغیر کسی امتیاز کے فراہم کر نے کو کہا گیا ، تہمت لگا نے والے کے لئے کڑی سزائیں رکھی گئیں ۔ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ، جو رزق اللہ تعا لیٰ نے دیا اس کو اللہ کے بندوں پر خرچ کر نے کی تلقین کی گئی اور مختلف مدات سے حاصل ہو نے والی قوم کو کس طرح کن کن پر خرچ کر نا ہے اس کی بھی وضاحت کر دی گئی ، امانت میں خیانت سے رو کا گیا ، غصے کو حرام قرار دیا گیا ، پیار ، محبت ، صبر اور تحمل کا درس دیا گیا ، سوار کو سلام میں پہل کر نے کی ہدایت دی گئی ، شادی لا زمی قرار دے کر زنا کا راستہ رو کا گیا ، حسب ضرورت ایک سے زائد شادیاں کر نے کی اجازت دی گئی تاکہ زنا کا مزید راستہ روکا جا سکے ، زائد شادی کی صورت میں ہر طرح کے عدل و انصاف کو لا زمی قرار دیا گیا ، بچوں کی تعلیم و تربیت جز و لا ینفک بنا دی گئی ، حقوق اللہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن حقوق العباد سے اجتناب یا غفلت کو نا قابل معافی جر م گنا گیا ، جائداد کی تقسیم میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کو شامل کر کے ہر قسم کی جا ہلا نہ روایت کے بت کو پاش پاش کر دیا گیا ، قطعی رحمی کو حرام اور صلہ رحمی کو حلال قرار دیا گیا ، معاشرے میں رہنے کے اصول سکھا ئے گئے ، اونچی آواز کے ساتھ بولنا نا پسندیدہ قرار پایا اور دھیمے لہجے کو نا پسند کیا گیا ۔ ہر معاملے میں نظم و ضبط کو اولیت دی گئی ، دو افراد بھی ہوں تو وہ اپنے اندر ایک کو امیر بنا لیں ، پا کیز گی آدھا ایمان قرار پائی ، جسم لباس ، رہنے سہنے کی جگہ ، گلیاں ، بازار ، شہر ، گاﺅں اور ملک کو صاف رکھنے کا حکم آیا۔ روح ، دل و دماغ سب کی پا کیز گی مسلمان ہو نے سے مشروط کر دی گئی ، خوشگوار زندگی گذار نے کا حکم دیا گیا ، یہاں تک کہ اگر میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے گھر اور خاندان اور پھر محلے پڑوس کا ما حول خراب ہو تا ہو توہر دو فریق کو الگ ہو نے کا اختیار بھی دے دیا گیا ۔ باپ کی شان اور رتبہ اپنی جگہ ، لیکن ما ں کے مر تبے اور شان کو ہر مر تبے اور شان سے ارفع و اعلیٰ کر کے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ، بیٹی کو رحمت کہا گیا تو بیٹے کو نعمت ، یاد رہے کہ نعمت کا حساب ہو تا ہے لیکن رحمت کا حساب نہیں لیا جا تا ۔ہر انسان کا ہر انسان پر ، ہر رشتے کا ہر رشتے پر ، حاکم کا رعایا پر اور رعایا کا حاکم پر کیا حق ہے اور ان کے ایک دوسرے پر کیا حقوق اور کیا فرائض ہیں ، ان سب کا ذکر کر دیا گیا ۔
معاشرتی برائیوں سے سختی کے ساتھ روکا گیا ، کسی کی عیب جوئی کر نا ، بُرے بُرے القابا ت سے ایک دوسرے کو پکارنا ، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کسی اور سے کر نا ، کسی کے راز کو کسی دوسرے تک منتقل کر نا ، کسی کی تضحیک کر نا ، کسی کو حقارت سے دیکھنا ، کسی کی خوشا مد کر نا ، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کے لئے آگے نہ بڑھنا ، کسی سے دشمنی میں اتنا آگے بڑھ جا نا کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پا مال کر دینے کے مترادف ہو ، اپنی زندگی کو بلا مقصد گزارنا ، لغو اور فضول قسم کی سر گر میوں میں حصہ لینا ، ایک دوسرے کی کھوج میں رہنا ، کسی کی کمزوریوں سے نا جا ئز فائدہ اُٹھا نا ، لوگوں کو غلط مشورے دینا ، گھروں میں تانک جھانک کر نا ، وعدے کر کے تو ڑ دینا ، آڑوس پڑوس کو نا خوش رکھنا ، بزرگوں کا قطعاََ خیال نہ کر نا ، اہل محلہ کے کام نہ آنا ، یہ اور اسی قسم کی بے شمار خرابیوں کو اپنے اندر پال پال کر اتنا تندرست و تو انا کر لینا کہ خود دوسروں کے لئے آزار جا ن بن جا نا اسلام کی تعلیمات کے یکسر خلاف اور لا ئق تعزیر عمل ہے ۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی ریاست کا اصل حاکم اعلیٰ اللہ ہی ہے کوئی انسان نہیں ، اور اصل میں اللہ ہی حاکمیت کے لا ئق ہے اور کوئی حاکمیت کے لا ئق ہے ہی نہیں ۔ انسان اس کا نا ئب ہے اور وہ اس بات کا پابند ہے کہ اللہ کی زمین پر ، اللہ کے بندوں پر اللہ کے قانون کو نا فذ کر ے ، اس کے بر عکس ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اور جس نظام زندگی کو اپنا ئے ہو ئے ہیں وہاں حاکم اعلیٰ عوام ہیں اور منتخب ہو نے والا نا م نہاد ”خلیفہ “ اللہ کے بجائے عوام کے آگے نہ صرف جو ابدہ ہو تا ہے بلکہ وہ مجبور ہے کہ اپنے آپ کو ملک کے قانون اور آئین کو عوام کی مر ضی اور منشا کے مطا بق تر تیب دے ، کیونکہ وہ عوام کی مر ضی سے منتخب ہو ا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عوام کے غیظ و غضب کا سیلاب اسے تنکے کی ما نند بہا لے جا ئے گا ۔
الحمد للہ ! ہم مسلمان ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اسلام اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہیں اور سب دکھو ں سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم اسلا م سے فاصلے بڑھا چکے ہیں اور بہت دوری پر جا کھڑے ہو ئے ہیں ۔ اسلام مر دوں سے کہتا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھو ، مگر ہم میں سے ایک بھاری اکثریت کی آنکھیں گلیوں ، با زاروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بڑی بے با کی سے تلاش و جستجو میں مشغول نظر آتی ہیں ، خواتین کا بھی عالم ان نگاہ بازوں سے کوئی مختلف نظر نہیں آتا ۔ وہ گڈے گڑیوں کی طرح سج سجا کے گلیوں ، بازاروں اور شادی بیاہ کے مو قع پر پریوں کے سے انداز میں دعوتِ نظا را دیتی پھر رہی ہو تی ہیں ۔
ہمارا کھا نا بے شک حلال اشیا ءکا ہو تا ہے ، لیکن ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو کھانا ہم کھا رہے ہیں وہ حلال آمدنی کا بھی ہے یا نہیں ؟ اشیا تو ساری حلال ہی ہیں ، ان کا ذائقہ بھی بہت خوب ہے اور ان کو پیش کر نے کا انداز بھی اسلامی ہے ، لیکن اگر یہ سب کچھ اُس آمدنی سے خرید ا گیا ہے جس میں حرام کی آمدنی کا پیوند لگ گیا ہے تو کیا وہ حلال ہی کہلا ئے گا ؟ اسی طرح ہمارا پہننا ، اوڑھنا ، خرید فروخت کر نا اور نیک کا موں میں اپنا سر مایہ لگانا کیا اسلامی کہلا ئے گا ؟ کیا ان با توں پر بھی کبھی ہمارا دھیان گیا ہے ؟ خوشی کے مواقع پر اللہ کا شکر ادا کر نا ، سجد شکر بجا لانا اور فتح و کا مرانی ملنے پر قر بانی کر نے جیسے عمل کو ترک کر کے ہم ہو ہا ، رقص ، ڈانس کر نے لگیں ، ہلٹر با زی کر نے لگیں ، خوب پٹا خے اور پھلجھڑیاں چھوڑ یں اور یہ سمجھیں کہ ہم اللہ کو راضی اور خوشی کر رہے ہیں تو شیطان تو ایسے اعمال سے ضرور محظو ظ ہو گا لیکن اللہ کسی طور بھی را ضی نہیں ہو سکتا ۔
کیا سود کا نظام ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کیا ہوا نہیں ہے ؟ کیا ہم نا جا ئز منافع کسی با ہر کے ملک کے کہنے پر لیتے ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں جس طرح اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے ؟ اگر ایماندار انہ جو اب ما نگا جا ئے گا تو جواب سو فیصد ”نفی “میں آئے گا ۔
ہمارے اسلا می معاشرے میں اتنی برائیاں د اخل ہو چکی ہیں کہ ہم اسلامی قدروں کو یا تو یکسر بھلا بیٹھے ہیں یا پھر اب ان پر عمل کر نا ہمارے لئے دشوا ر تر ہو تا جا رہا ہے ۔ آج ہم نمازیں بہت تکلیف کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ اکثر پڑھتے بھی نہیں ہیں تو دعائیں ہم خاک کرینگے اور اللہ سے رحمت و شفقت کی تو فیق کیا خاک طلب کرینگے ۔ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ ”رشتے داروں کا حق دو اور مسکین و مسا فر کو اس کا حق دو ، تو کیا ہمارا رویہ ایسا ہی ہے ؟ کیا ہم اس رزق پر جو اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے سانپ کی طرح کندالی مار کر نہیں بیٹھے ہو ئے ہیں ؟ کسی کو خود سے بڑھ کر دینا تو در کنا اگر کوئی غرض مند ہمارے در پر فریادی بن کر آ جا ئے تو اس کی مدد کر نے کے بجائے ہم اس کوبے در دی کے ساتھ ٹھو کر ما رنے کے لئے تیار و آما دہ ہو جا تے ہیں یا نہیں ؟ جھوٹ سے دور رہنے کو کہا گیا ہے لیکن ہم جھوٹ بولنے سے با ز نہیں آتے ،حسن سلوک کے لئے کہا گیا ہے ، بد سلوکی اور بے ایما نی کو ہم نے اپنا پہننا اوڑ ھنا بنا رکھا ہے ، نما زیں ہم پڑھتے نہیں ، رو زے نہ رکھنے کے لا کھوں عذر تراش لا تے ہیں ، حج ایک (نعوذ باللہ ) فضول خر چی کا عمل لگتا ہے اور زکو ة وصدقات اس لئے نہیں کر تے کہ اس سے دولت میں کمی کا خدشہ ہو تا ہے ۔
کیا شادی بیاہ میں جو کچھ بھی ہو تا ہے اس سے ہماری اسلامی قدروں کا کوئی تعلق ہے ؟ نہ ڈھول دھمکا ، یہ جا نوروں کی ہو ہو ہواور ہا ہا ہا یہ اونچی آوازوں میں گا نے بجا نے ، یہ پریوں کی طرح خواتین اور بچیوں کا پورے پنڈال میں اڑ تے پھر تے ادھر اُدھر جا نا ، یہ مر دوں کی بے غیرتی کی تصویر بنے رہنا ، اور یہ ہر قسم کی فضول رسو مات کو اختیار کر نا اور بضد رہنا ، کیا یہ سب ہماری تہذیب ،ثقا فت اور اقدار کا نمو نہ اور حصہ ہیں ؟ عجیب تر بات یہ ہے کہ ہم جب بھی پر انی قدروں کی بات کر تے ہیں تو نجا نے کیوں ہم ان قدروں میں یہ بات تلاش کر نے بیٹھ جا تے ہیں کہ کون سرہا نے کے بجائے پا ﺅں کی جا نب بیٹھ گیا ہے ، گھر کی خو اتین مر دوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے زمین پر بیٹھی گئی ، میاں بیوی اور بچے ایک ساتھ کھا نا نہیں کھا سکتے ، وغیرہ ۔ ان جیسے اعمال ہمیں اچھی قدریں لگتی ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے افعال ہماری اچھی تہذیب کی نشانیاں ہیں اور ان کو معاشرے میں جا ری و ساری رہنا چاہئے۔ لیکن فقط یہ چند آداب کے طور طریق ہی ہماری اسلامی اقدار نہیں ، اسلامی اقدار تو وہی ہیں جن کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے ۔ جب تک ہماری زندگی ان طور طریقوں کی پا بند نہیں بنے گی اُس وقت تک نہ تو ہماری حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہمیں سکون قلب ، اطمینان اور چین نصیب ہو سکتا ہے ۔