امروہہ کے مسلمان بناتے ہیں شبھ ہولی کی رنگین ٹوپیاں ،غیرممالک تک جاتی ہیں

ڈاکٹر مہتاب امروہوی 

امروہہ- ملک کی سیاست میں بھلےہی ہندومسلم کےنام پرانتخابات ہوتےہوفرقہ پرستی کتنی بھی بڑھ جائے لیکن امن کی نگری امروہہ نےہمیشہ اتحاد واتفاق کومظبوط و مستحکم کیا ہے ہرفنون لطیفہ اورصنعت کے ذریعہ امروہہ کی منفرد پہچان پوری دنیا میں قایم ہے ہندوستان کےصوبہ اتر پردیش کا تاریخی شہرامروہہ جوایک زمانےسےقومی یکجہتی اورانسان دوستی کی مثال کےلیےمشہورہے یہاں کے ایک مخصوص خاندانوں کےلوگ اپنےہندو بھائیوں کےتہوار ہولی پرجوخاص ٹوپیا ں تیار کرتےہیں جس نےامروہہ شہرکی شناخت نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی الگ پہچان بنائی ہے-ملک بھرمیں امروہہ کےمسلمانوں کےہاتھ کی بنی شبھ ہولی کی ٹوپی پہن کرہندوبھائی ہولی مناتے ہیں یہ امروہہ شہرکےلئےفخرکی بات ہےاوراس خاندان کےلئےبھی جو ہولی کا تہوارآنےسے کئی ماہ پہلےہی ہولی کی ٹوپیوں کی تیاریوں میں لگ جاتےہیں امروہہ کےمسلم ہولی کےتہوارپراس میں خلوص ومحبت کےرنگ بھرکرپوری دنیا کومحبت اورانسان دوستی کا پیغام دیتےہیں- امروہہ کےایک خاص خاندان کےلوگ جوخود کومغل بتاتے ہیں کم ازکم ڈیڑھ دوسوسال سےہولی کی رنگین ٹوپیاں بناتےہیں اورہرسال شبھ ہولی کی ٹوپی بناکراپنےبزرگوں کی تھذیب و روایات کوسنبھالےہوے ہیں -اگرہم امروہہ کی تاریخ پرتوجہ دیں تویہ شہرڈھائی ہزارسال سےبھی زیادہ قدیم ہےامروہہ کی تاریخ تقریبن کتب پرمشتعمل ہےمشھورمورخ محمود احمد عباسی نے اپنی کتاب تاریخ امروہہ میں لکھا ہےکہ امروہہ کو 474 قبل مسیح ہستنا پورکےراجا امرجودھ نےاپنی بہن امبا رانی کےنام سے بسایا تھا تھا اس شہرکا نام امروونم یعنی آموں کےباغات رکھا تھا اسی کےساتھ قریبی گاو¿ں گجستھل بھی اسی وقت بسایا گیا تھا ہندی میں گج کےمعنی ہاتھی اوراستھل کا مطلب تھان یعنی اس گاو¿ں کو ہاتھیوں کے تھان کی شکل میں اس وقت استعمال کیا گیا تھا جو آج بھی گجستھل کے نام کےگاو¿ں سےمشھور ہےامبا رانی سےراجا امرجودہ بیحدمحبت کرتا تھاجس کی وجہ سےامروونم نام رکھا گیاتھا-.زمانےگزرتےگئےاورامروہہ کا نام بھی بنتا بگڑتا رہا سلاطین دہلی کےاکثرفرامین عربی اورفارسی میں ہیں جس میں امروہہ کا نام انبروہا انبہ یعنی آم کےدرخت درج ہےیہاں مشھورسیاح ابن بطوطہ نےبھی اپنی آمد درج کی ہےاس نےاپنےسفرنامہ بلدہ حسنہ میں لکھا ہےکےجب میں امروہہ پہنچا تورات کا وقت تھا اورشہرکا صدردروازہ (جواب مرادآبادی گیٹ کہلاتا ہے)بند تھا میں نےاپنی آمد کی اطلاع شہرقاضی کو بھجوائی توشہرقاضی نےرات میں ہی مجھےشہرمیں داخل ہونےکی اجازت مرحمت فرمائی اس نے لکھا ہےکےامروہہ ایک چھوٹا ساخوبصورت شہرہےمیری شہرقاضی نےجوضیافت کی تھی اس کوکبھی فراموش نہی کرسکتا-یہاں کےلوگوں نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی میں اپنی اہمیت اورقربانی کااحساس کرایا تھا 21 مئی 1857کو جب میرٹھ شہر میں آزادی کے متوالوں نےآزادی کی آواز اٹھائی تودودن بعد امروہہ کےمجاہدین آزادی نے امروہہ کی تحصیل کولوٹ لیا اوردوانگریزملازین کوہلاک کر ڈالا تھا جن کی قبریں آج بھی پولس چوکی مچرٹھہ کےسامنےموجود ہیں اس وقت مجاہدین نے تحصیل کے سرکاری خزانےسے ہزاروں روپے لوٹے تھےاورپھریہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی تھی یہ الگ بات ہےکےاس وقت آزادی کی تحریک کامیاب نہی ہوسکی تھی کیوں کہ کچھ ملک کے غداروں نے ہی اس مہم کو برباد کردیا تھا لیکن اس بغاوت کی پاداش میں یہاں کےہزاروں خاندانوں کواپنی جان قربان کرنا پڑی،اپنی جائےدادیں ضبط کرا نی پڑی تھیں جن میں سید گلزارعلی،سید شبیرعلی ساکنان محلہ دربارکلاں امروہہ کےخاندان کوکافی اذیتیں برداشت کرنا پڑی تھیں-لیکن لاکھ کوششوں کےبعد بھی انگریزان کو پکڑ نہی پاے تھے-اسی طرح 1947 کی تحریک آزادی میں اہل امروہہ کا بھرپور رول رہا ہےیہاں کےلوگوں نےجہاں حب الوطنی کواپنا اوڑھنابچھونا بنایا تودوسری طرف یہاں کےلوگوں نے دست کاری سے بھی ملک کونئی ایجادات سے روشناس کرایا سب سے پہلےامروہہ میں روئی دھنےکی مشین کی ایجاد یہاں کےمستری اعجازحسین نےکی تھی جنکےبیٹےاستاد سرفراز،شاہنواز ، محمد آصف اورامریکا میں مقیم محمد دلنواز ہیں-لکڑی کےرتھ بنانےمیں دھاندوسیفی کی خدمات آج بھی قابل ذکرہیں اسی طرح ہولی کی رنگین ٹوپیاں امروہہ کےمسلمان بناتے ہیں اور پورے ملک میں ہولی کھیلتے وقت استمعال ہوتی ہیں یہاں کےصوفی سنتوں کی بھی طویل فہرست ہےمشھور بزرگ حضرت شاہ شرف الدین رح کی درگاہ کےسانپ بچھوانسانوں کوآج بھی نہیں کاٹتےتوحضرت شاہ نصرالدین رح کےمزارپرگم شدہ گدھےآج بھی ملتےہیں لیکن وہاں پیشاب یا گندگی نہی کرتےہیں-امروہہ جومصحفی کی جائےپیدائش ہےتوکمال امروہوی،روف امروہوی رئیس امروہوی،جون ایلیا،حیات امروہوی،کوثرالقادری ،گوہرامروہوی جیسےہزاروں شعرا ادبا ،نقاد ،حکیم ،ماہرفن ،عالم دین بھی یہاں کی شناخت رہےہیں-یہاں کی سیاسی قیادت جہاں مولاناحفظ آلرحمان،مولانا اسحٰق سنبھلی ،چیتن چوہان،راشد علوی، شرافت حسین رضوی،تقی ہادی، وید رام کمار،اچاریہ کرپلانی جیسےلیڈروں نےکی تومنشی پریم چند جیسےافسانہ نگاروں،فکرتونسوی،مجتبیٰ حسین،کنہیا لال کپور،جیسےمزاح نگاروں نے یہاں کی محفلوں کووقاربخشا ہےہرمکتب فکرکےلوگوں کی یہ سرزمین آج بھی زمین وآسمان کی وسعتوں میں اپنی الگ شناخت بنا رہی ہےمشہور اسروساننٹسٹ خوشبو مرزا نےاپنی ذھانت سےآسمان کی بلندیوں کوچھوکراس سرزمین کومزید محترم بنا دیا ہےہرشعبہ میں اہل امروہہ کاموثرعمل دخل برقرار ہےآج کل ہولی کا تیوہارآ رہاہےشہرکےمخصوص مغل خاندان کےلوگ رنگ برنگی ٹوپیوں کوتیارکرملک اوربیرون ممالک کوبھیج رہے ہیں-امروہہ میں اس مسلم خاندان کےقریب آدھا درجن خاندان کئی پشتوں سےہندوبھائیوں کےتہوارمیں رنگ بھرنےکےلئےاتحاد کی مثال بن کرہولی کےموقعےپرسر پراوڑھی جانےوالی یہ رنگ برنگی ٹوپیاں بناکرانتہائی خوشی محسوس کرتےہیں ویسےتویہ ان سیزن کاکاروبارہےلیکن ان کی سوچ اورنظریات کودیکھ کریہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ امن کی بستی امروہہ کےنوجوان بھی بھائی چارے کی مثال کوبرقراررکھنےمیں پیچھےنہیں ہےاس سال بھی اس خاندان نےشبھ ہولی کی رنگین ٹوپیاں بنانےکی شروعات کئی ماہ پہلے ہی کردی تھی جس سےوقت پرآرڈر پورا کرسکیں اس خاندان کےایک کاریگرنےبتایا کہ ہمیں اب اس دھندےمیں کوئی خاص فایدہ نہیں ہےلیکن خاندانی وراثت کونبھا رہے ہیں تاکہ یکجہتی کی روایت قایم رہےحالانکہ ٹوپی بنانےمیں خواتین اور مرد دونوں کا تعاون برابر رہتا ہےچھ ماہ قبل ململ کی دھوتیاں لاکران کی دھلائی کرکےان پرکلف اور رنگ چڑھایا جاتا سوکھنے کے بعد ان پر استری کی جاتی ہے پھرکٹنگ ماسٹر کےذریعہ ان دھوتیوں سےایک سائز کی درجنوں ٹوپیاں کاٹی جاتی ہیں جن کو ایک خاتون کچی سلائی کرکےآگے بیٹھی خاتوں کو دیتی ہےجواس پر پکی سلائی کرتی ہےاورآگے بڑھا دیتی ہےاگلےمرحلےمیں ایک شخص ان ٹوپیوں کےچاروں طرف گوند سے رنگین جھالر لگاکر آگےبیٹھے کاریگرکو دیتا ہے جو ان پرشبھ ہولی کا ٹھپہ لگاتا ابھی کام ختم نہیں ہوا آگےبیٹھی خاتون ان ٹوپیوں کوترتیب سےلگاکربیس بیس کےپیکٹ بناکرپھرسوسوکے بنڈل میں بناتی ہےبعد میں ان بنڈلوں کوبڑے بڑے کارٹونس میں بھرکردوردرازکےشہروں میں بھیجنےکےلیےتیار کیا جاتا ہے-تقریبن آدھا درجن ہاتھوں سےگزرکر ٹوپی سر تک پہنچتی ہے-ہولی سےپہلے ہی ان ٹوپیوں کی فرخت شروع ہوجاتی ہےاس نےمزید بتایا کہ ہمیں بہت کم مزدوری ملتی ہےزیادہ کمیشن بیچ والےبڑے تاجرکماتے ہیں انہوں نےیہ بھی کہا کہ مرکزی یا صوبائی سرکاراس قومی یکجہتی کی صنعت کو گھریلو صنعت قراردیکراس کےلیےہمیں بینکوں سےکم سود پرقرض دلاے تاکہ ہم بھی اقتصادی پریشانی سےبےفکرہوکراس کام کوکرسکیں اب ہمیں آرڈر کو پورا کرنےکےلیےادھرادھرسےقرض لیکرمانگ پوری کرنا پڑتی ہےلیکن ہم امروہہ کی اس بہترین روایت کوہمیشہ ہمیشہ قایم رکھناچاہتےہیں تاکہ فرقہ پرست طاقتیں اورنفرت پھیلانےوالے ہماری اس کوشش سےکم سےکم اپنی اپنی نظروں میں شرم سارہوسکیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا اور سیاست داں اگر ہمارے معاملات کو سرکاروں تک پھنچایین توممکن ہےکہ سرکارہماری بھی سدہ لےلے زرائے کے مطابق یہ ٹوپیاں امروہہ سے دہلی ،لکھنو، بھوپال ،کولکتہ ،ہریانہ ، گجرات ،راجستھان کےعلاوہ ملک کےدیگر بڑے شہروںکو ریل اورٹرانسپورٹ کےذریعہ بھیجی جاتی ہیں تونیپال ،شری لنکا ،بھوٹان ،بنگلہ دیش وغیرہ کوایرکارگوسے تھوک ڈیلراپنےطورپربھیجتےہیں جس سےان بچولیوں کو ٹوپی کاریگروں سے زیادہ فایدہ ہوتا جس کی وجہ سےان کاریگروں کی اقتصادی میں کوئی تبدیلی نظرنہیں آتی ۔