آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت: میں ہرا پیڑ ہو ں گرنے سے بچا لو مجھ کو

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت:  میں ہرا پیڑ ہو ں گرنے سے بچا لو مجھ کو

آل انڈیامسلم مجلس مشاورت 1964 میں اس ماحول میں قائم ہوئی تھی کہ جب ملک بھر میں فرقہ  وارانہ فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور پورے ملک کا مسلمان خوف و ہراس کا شکار تھا ایسے میں مسلمانوں کے اندر اعتماد بحال کرنے اور خوف دور کرنے نیزفسادات کے سلسلے پر قدغن لگانے کی غرض سے ملک بھر کے مسلم قایدین ،علماء و دانشور سر جوڑ کر بیٹھے تھے اور ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا تھا جو متحدہ طور پر حالات کا مقابلہ کرسکے، مسلمانوں کے دل میں تیقن پیدا کر کے امن کی فضا قایم کرسکے۔  ملک کی تقریبا تمام موقر تنظیمیں، ادارے اور افراد اس تنظیم کے رکن بنے تھے اور پورے ملک کا دورہ کر کے حالات کو بدلنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کی تھیں۔ گذشتہ ۸۵ سال سے یہ تنظیم  گرم اور نرم حالات سے گزرتے ہوئے ملت کیحالات سے نبرد آزما رہی لیکن ملک کی موقر تنظیموں لے اس وفاق پر آج  خطرات کے بادلمنڈلا رہے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مشاورت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحرانی دور سے گزر رہی ہے جو اسے تقسیم یا مستقل تعطل کا شکار بنا سکتا ہیاگر ایسا ہوا تو یہ ملت کا عظیم خسارہ ہو گا۔

آج امت مسلمہ ہند جس دور سے گزر رہی ہے اس امت کو مستحکم تنظیموں اداروں اور جید علماء اور دانشوروں کے وفاق کی  شدیدضرورت ہے مشاورت ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہو سکتا ہے کہ جس کے بینر تلے جماعت اسلامی ،جمیعت علمائے ہند، جمیعت اہل حدیث، شیعہ کاؤنسل، سیاسی جماعتیں ،ممبران پارلیمنٹ ندوہ، دیوبند اور بریلی کے علما ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر ملت کے گوناگوں مسائل پر تبادلہ خیال کر کے ایک متحدہ اور  مشترکہ حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں اور پھر اپنی اپنی تنظیموں ، اداروں اور پارٹیوں کے ذریعے اس حکمت عملی پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔لیکن آج کے زمانے میں بہت سی طاقتیں ملک کی مسلم  تنظیموں اور قیادتوں کو توڑنے، غیر موثر بنانے اور قیادت کو  ذلیل کرنے کی حکمت عملی پر خاموشی سے کام کر رہی ہیں اور تنظیموں کے درمیان ایسے افراد کی پرداخت اور معاونت کی جارہی ہے جو تنظیموں کے اصل اغراض و مقاصد سے قطع نظر اختلاف اور نفرت کو ہوا دے کر انتشار بپا کر رہی ہیں تاکہ بالآخر مسلم تنظیمیں، ادارے اور قیادت بے اثر ہو جایئں اور امت مسلمہ ہند ایک ہجوم بن کر رہ جایے اور پھر کوئی جب چاہے جہاں چاہے  اس ہجوم کو ہنکا لے جائے، اسے حاشیہ پر دھکیل دیا جائے اور کوئی پرسان حال نہ بچے۔ اسی سازش کی راہ پر آج کل مشاورت بھی گامزن ہے۔

مشاورت کا موجودہ بحران ۵۱۰۲ میں اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب مشاورت کی دو سالہ انتخاب کے ذریعے نئی ٹیم نے چارج لیا  اس کے دو سال بعد تک تو کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا لیکن جب دوسری میقات کے لیے 2017 میں انتخاب ہوا تو بہت سے ارکان کو اس کے طریقہ کار پر اعتراض ہوا۔انتخاب میں شفافیت نہیں برتی گئی تھی۔ اس سلسلے میں کچھ ارکان  عدالت میں چلے گئے۔  انتخابی نتائج کا اعلان کرنے سے عدالت نے روک دیا۔میرے نزدیک عدالتی کارروائی بالکل غیر ضروری تھی گفتگو کے ذریعے بھی معاملات کو حل کیا جا سکتا تھا۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ عدالت جانے والے ارکان کا منشا کیا تھا۔دو سال بعد یعنی 2019 دسمبر میں مقدمہ واپس لے لیا گیا لیکن پھر بھی انتخابی نتائج کا اعلان کر نیمیں غیر ضروری طور پر تکنیکی بہانوں سے تاخیر سے کام لیا گیا اور ستمبر2020۔میں  آتھ ماہ تاخیر سے نتائج کا اعلان کیا گیا۔اس طرح دو سال کی مدت تعطل میں گذری مگر صدر مشاورت اپنا کام کرتے رہے۔ اور اس پر بضد بھی رہے کہ ان کی میقات 2020 سے گنی جسے اس وقت کے سپریم گاہینڈس کاونسل کے صدر  حضرت مولانا جلال الدین انصر عمری صاحب جو اس وقت امیر جماعت اسلامی بھی تھے  نے قبول کر لیا اور ستمبر 2022 تک کی معیاد مقرر کی۔ جب یہ مدت بھی گزر گئی تو انہوں نے کہا میں تو مشاورت کے دستور کے مطابق ایک کیلنڈر سال سے اگلے کیلنڈر تک صدر رہوں گا۔چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب نے مشاورت کے نام اپنے  آخری خط میں مشاورت کو یاد دہانی بھی کرائی کہ آپ کی مدت ختم ہو رہی ہے لہذا اگلی میقاتکے انتخاب کا اعلان کریں مگر انکار کر دیا  گیااور دسمبر تک صدر بنے رہنے کی ضد پر قائم  رہے۔ اس پوری مدت کے دوران مشاورت اپنے اصل اہداف و اغراض و مقاصد سے کوسوں دور رہی۔ اس دوران امت پر کیسا کیساوقت آ کے گزر گیا مآ ب لنچنگ، فسادات ،نفرت انگیز بیانات ،بے قصوروں کی گرفتاریاں  ،الغرض حالات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے مگر مشاورت کی جانب سے کوئی بھی سرگرمی  عمل میں نہیں آئی اور امت کا ایک فلاحی اور مشاورتی ادارہ صرف چند افراد کے اقتدار کی جنگ اور مقدمہ بازی کی نذر ہو گیا۔ اسی میقات کے دوران کچھ عجیب و غریب فیصلے بھی لے  لئے گئے۔ پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ بہت بڑی تعداد میں تقریبا 50  سے زائد ارکان کو مشاورت کی رکنیت سے محروم کردیا گیا اور یہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنی رکنیت فیس جمع نہیں کی اور میٹنگوں میں بھی شرکت نہیں کر رہے تھے عموما ارکان انتخابات کے وقت میں ہی پوری میقات کی فیس ادا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ برسہابرس سے چلا آرہا ہے۔ 2017 کے بعد سے انتخابات ہی نہیں ہوا تھا  چنانچہ اکثر ارکان  نیفیس جمع نہیں کرائی نہ ہی دفتر نیکسی کو یاد دہانی کروائی مگر ایسے ارکان جن سے مخالفت کا اندیشہ تھا صرف ان کی رکنیت ختم کی گئی۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں، مفتی عطا الرحمان قاسمی ،کمال فاروقی ،معصوم مرادآبادی اور ایسے ہی امت کی  بیشترمعتبر اور نامور شخصیات کی رکنیت کو خارج کر دیا گیا جبکہ ابھی بھی مشاورت میں ایسے بہت سے ارکان موجود ہیں جنہوں نے آج تک کسی بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی  لیکن  ان پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 

اسی طرح مشاورت کے دستور میں ترمیم کا معاملہ بھی ہے دستور میں  ترمیم کی گنجائش تھی مگر ہر دستور میں ترمیم کا ایک طریقہ کار ہوتا ہیپہلے ترامیم کا مسودہ ارکان کو بھیجاجاتا ہے۔ تجاویز مانگی جاتی ہیں۔ پھر ایک باضابطہ میٹنگ میں ان سب پر خوب اچھی طرح بحث کی جاتی ہے  تب ان ترامیم کو اکثریت رائیسے قبول کیا جاتا ہے۔ریفریڈم کے ذریعے اہم دستوری ترامیم کا رواج کہیں بھی نہیں ہے ملک کی پارلیمنٹ بھی کسی قانون میں ترمیم کرتی ہے تو پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے اور دستوری ترامیم تو اس قدر مشکل  ہے کہ آزادی کے بعد سے  آج تک صرف ایک بار ایمرجنسی کے دوران ہی ایک دستوری ترمیم کرنا ممکن ہو سکی اور یہاں ریفرنڈم کے ذریعے ہی تقریبا پورا کا پورا دستور بدلاجا رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شفافیت اور کوئی جمہوری طرزعمل دکھائی نہیں دیا۔

ان معاملات پرمشاورت کے اکثر اراکین کو سخت اعتراض رہا ہے۔ مشاورت ایک  جمہوری پلیٹ فارم  بننے کی بجائے چند افراد کی قیدمیں یرغمال بن کہ رہ گئی ہے۔اور افہام و تفہیم اور مشورے سے گریز کرتے ہوئے آمرانہ انداز سے ایک شخص کے ارد گرد گھومنے لگی ہے۔ظاہر ہے ایک تاریخی طور پر مفید تنظیم کا یہ انداز کار کسی کو بھی پسند نہیں آ سکتا چنانچہ ابھی حال ہی میں ۸  اکتوبر کو مرکزی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہوئی جس کا اکثر ارکان نے بائیکاٹ کیا اور تقریبا 150 ارکان میں سے محض ۳۲ ارکان نے ہی شرکت کی۔ اس سے قبل ناراض ارکان نے کم از کم تین مرتبہ مشاورت کے کارگزار صدر کو خط لکھا کہ وہ نکالے گئے ارکان کو بحال کریں اور دستوری ترامیم کو اگلی  میقات تک موخر کریں مگر کسی بھی خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ وہ حالات ہیں جنہوں  نے ملک کی ایک نمائندہ ت وفاقی نظیم کو ناگفتہ بہ حالات میں لا کھڑا کیا ہے ۔ اس کا دفتر سیاسی و انتخابی  ریشہ دوانیوں کا مرکز تو ہے مگر ملت کو درپیش معاملات پر ایک لفظ بھی اس دفتر سے اب نہیں سنا ئی دیتا۔ مزید برآں جو تنظیمیں اور افراد مشاورت کو اس صورتحال سے نکال کر اپنے مقصد کی طرف واپس لوٹا نا چاہتے ہیں ان پر بھی طرح طرح کے ذاتی اور رکیک حملے کیے جارہے ہیں۔مشاورت اپنے زبوں کے آخری مرحلے میں کھڑی ہے۔ دوسری شریک جماعتوں کو بھی نشانہ بنا کر ان کی تذلیل کی جارہی ہے۔  یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سارے قضییکے پیچھے صاحبان  حرص و ہوس ہی ہیں یا کوئی اور معشوق بھی  اس پردہ زنگاری میں موجود ہے کیونکہ ملت کے اکثر اہل زر جو کوچہ اقتدار کے حاضر  باش رہتے ہیں اس چلمن کے پیچھے سے چھلکتے نظر آتے ہیں۔ یہ امر بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ   دستور میں ترمیم سے متعلق ایک شق جس کی تشہیر بہت زور و شور سے کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم پسماندہ طبقات کی نمائندگی کے لئے ان کومشاورت میں  ریزرویشن  دیا جائے گا۔کارگزار صدر بھی خود کو پسماندہ طبقے سے بتاتے ہیں اور وہ کسی  ریزرویشن کے بغیر بھی دو سالہ انتخاب کے لیے باقاعدہ  منتخب ہوئے  اور اب سات سال سے  کسی نہ کسی صورت مستقل صدر ہیں۔موجودہ سیکرٹری بھی  مبینہ پسماندہ طبقے سیہی  آتے ہیں۔ملی تنظیموں میں اس قسم کے ریزرویشن کی بات انتشار و افتراق  کا سبب  تو ہسکتی ہے مستحسن نہیں ہو سکتی۔ غور طلب ہے کہ بحث بھی اس وقت شروع ہوئی جب جولائی 2022 میں بی جے پی نے اعلان کیا کہ وہ اب مسلم پسماندہ طبقات کو خود سے جوڑنے کی کوشش کرے گی۔ اگست 2022 سے مشاورت میں پسماندہ کی بحث جاری ہے اور اس کی ہی تشہیر بھی ہو رہی۔ ایک طرف آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ ذات برادری کی  تقسیم کو ماضی کا فسانہ سمجھ کے بھول جانا چاہئے دوسری طرف ان کا ہی سیاسی بازو مسلم  پسماندہ  کی بات کر کے مسلمانوں میں اسی بھولے بسرے فسانے کے تار چھیڑ رہا ہے۔ 

ملت کی اتنی بڑی نمائندہ تنظیم کی رکنیت بھی 121 تک محدود کی جارہی ہے جبکہ پورے ملک کے ہر طبقے سماج اور خطے کو مشاورت کا شریک بنانے کے لیے اس کی تعداد کو کم از کم 500 تک بڑھانے کی بات کی جارہی تھی۔ان حالات میں ہے کہ دل برداشتہ ہو کربہت سے سینئر اور ذی علم حضرات  مشاورت سیمستعفے ہو کر کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔