مسلمان اپنا احتساب کئے بغیر بڑی تبدیلی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا

اسے اپنی طرز زندگی اور طریقہ کار کو بدلنا ہوگا:مولانا عارف سراج نعمانی

لونی03مارچ (پریس ر یلیز)بارگاہ خداوندی میں ہمیں شکر گزاری کے کلمات بجالانے چاہئیں کہ آپکی زندگی کو اور آپ کے جان اور مال کو اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے جس چیزکو اور جس امانت کو بیچنے والے ہم ہوں اور خریدنے والا اللہ ہو اس میں خیانت نہیں کی جاسکتی لہٰذا جو شب وروز اللہ کے ساتھ ہم خیانت کی راہ پر گامزہ ہیں سب سے پہلے عہدوپیماں کے تحت ایسی تمام سرگرمیوں کوترک کرنے کی ضرورت ہے جن کے عوض اللہ ناراض ہوتا ہواور زندگی ضلالت وگمراہی کی دلدل میں جاگرے مذکورہ خیالات کا اظہار اسلامی اسکالر مولانا عارف سراج نعمانی نے کیا انہوں نے کہا کہ جو ذی شعور انسان عقل سلیم ہونے کے باوجود اپنے رسول کی خدمات انکی سیرت اور دین وامت کے لئے برداشت کی گئی قربانیوں کو بھلا دے اور انکی سیرت کو عملی نمونہ نہ بنائے تو یاد رہے تاریخ بھی اسکو بھلا دیتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پوری انسانیت کے لئے مثالی نمونہ ہے آپکی زندگی کے نقوش انسان کو ابدی کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں یعنی ایسی کامیابی جو دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں کو محیط ہے جس طرح ہم اپنے اہل خانہ میں ایک ذمہ دار ہونے کی صورت میں انکی راہنمائی انکی صلاح وفلاح کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ ہم پر جزولازم کے مانند ہے اسی طرح ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم راہ حق سے بھٹکی انسانیت کو راہ راست پر لانے کی محنت کریں بادشاہ اپنی رعایا کا ، گھر کا ذمہ دار اپنے افرادِ خانہ کا ، کارخانہ کا مالک اپنے ماتحت ملازموں کو راہ راست پر لانے کی فکر نہیں کریگا تو قیامت کے دن اس کوتاہی پر باز پرس ہوگی، لیکن قوم کے وہ مہذب افراد جنکو عالم اور انبیا کا وارث کہا جاتا ہے انکے اوپر بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ خیر کی اور راہ حق سے بھٹکے لوگوں کی صلاح وفلاح کی مکمل فکر کرنے کے ساتھ اسوہ رسول سے منسلک کرنے کی جہد مسلسل کریں ، معاشرہ اور قوم روز وشب کی فکروں محنتوں اور منصوبہ بندیوں سے ترقی پذیر ہواکرتاہے مولانا عارف سراج نعمانی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گھر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر واٹسپ اور سوشل میڈیا پر سرگرم رہ کرسسکتی و ہچکولے کھاتی قوم کو بام عروج پر پہنچانے کی فکر کرے تو یہ مغیری لال کے سپنے دیکھنے دکھانے اور خیالی پلاو¿ بنانے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ آج امت مسلمہ یقیناً کسی فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ نے کے لئے اپنے علماءوراہنمایان قوم کی جانب پیاس بھری نظر سے دیکھ رہی ہے کہ کسی طرح انکو قعرذلت کے گڑھے سے نکالاجائے اس کے لئے ہمیں احتساب کی ضرورت ہے تصفیہ قلب و تزکیہ نفس کی اشد ضرورت ہے ، ہر ذی رائے شخص اپنے مخاطب اور اپنے چھوٹو کی تجاویز اور مشوروں اور انکے جزبات کی قدرکرنا سیکھے کیونکہ آج جس مقام پر اللہ نے آپکو پہنچایا ہے وہ سدا نہیں رہیگا کیونکہ آئندہ کسی ادنیٰ انسان کو بھی وہ اس مقام پر پہنچاسکتا ہے مختار کل شام ہے اس کی۔لہذا ایک دوسرے کو عزیز سمجھ کر غمخوار بن کر باہمی پیارومحبت کی لڑی میں دھاگے میں بندھے موتی کی طرح رہنے کی ضرورت ہے ہمیں ادفع بالتی ھی احسن فااذالذی بینک وبینہ عداوتا کآنہ ولی حمیم کے مصداق بننے کی ضرورت ہے بغض وعداوت دشمنی ونفاق کے راہ پر چل کر خطرہ ہے کہ کہیں روز مرہ کی نیکیاں اور اعمال صالحہ بھی زائل ہوکر نہ رہ جائیں کیونکہ حاسد کی مثال اس طرح دی گئی ہے جیسے ایک سوکھی لکڑی جسکو آگ لگائی جائے اور وہ لکڑی آگ کی تپش میں مکمل جل کر خاکستر ہوجائے یہی مثال حاسد کی بیان کی گئی ہے کہ حسد نیکیوں کھاجاتا ہے اور حاسد حسد کی راہ پر چل کر خود تو کبھی ترقی پذیر نہیں ہوتا مگر افسوس یہ کہ وہ اس مذموم عمل کے تحت اپنے اعمال صالحہ کو بھی ضائع کربیٹھتا ہے۔لہٰذا مقصد زندگی کی راہ سے بھٹک کر ہم اور ہمارے نسل نو جس بے راہ روی کا شکار ہوچلی ہے اور بددینی اور بے یقینی وبے اعتمادی کی راہ پر گامزن ہے اسکو صحیح سمت لانے کے لئے ہمیں عملی طور پر اپنی دینی ملی کارگزاریوں کو بڑھانا ہوگا مولانا عارف سراج نعمانی نے بہتر طریقہ کار پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ افراد سازی میں یقین محکم جزبہ جانثاری و ایثاروہمدردی کی شمع کو پہلے جلانا ہوگا اور دین محمدی کے تقاضوں اور اصولوں کی تکمیل میں سب سے قبل حسن اخلاق اور اخلاص کی راہ پر چلتے ہوئے باہمی دینی وملی اتحاد پر زور دینا ہوگا کیونکہ باری تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ اے ایمان والوں اطاعت کرو اللہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپس میں جھگڑو نہیں یعنی فساد برپا نہ کرو اگر تم نے اس طرح کی بزدلی کا مظاہرہ کیا تو جو تمہاری بندھی ہوئی طاقت ہے وہ بکھر جائیگی افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج ہمارے ساتھ یہی ہورہا ہے کہ ہم اختلاف بغض وعناد خود پسندی مفاد پرستی خود غرضی پر محنت کررہے ہیں یہ امت محمدیہ کا شیوہ نہیں ہے لہٰذا ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنے اندر ناقابل یقین تبدیلی پیدا کریں۔