منصب دعوت اور ہماری ذمہ داریاں

عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی 

اسلامی ایک آفاقی اور عالمگیر  نظام ہے ،جسے برپا کرنے کے لیے  رب کائنات نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہﷺ  کو بشیر ونذیر بنا کرمبعوث فرمایا،آپ ﷺ نے اسلام کے اس  آفاقی نظام کو اپنی دعوت اور اس راہ میں صبر وشکیبائی اور انتھک قربانیوں کے ذریعہ اہل کائنات تک پوری امانتداری سے بلاکم کاست پھونچادیا،آپ ﷺ کی اس بعثت کامقصد اصلی ہی دراصل دعوت ،تعلیم اور تزکیہ نفس تھا اس لیےآپ ﷺ نے کبھی بھی  ملک و سلطنت یا بادشاہت وحکومت کو اپنی محنت کا  ہدف نہیں بنایا بلکہ آپ ﷺ کی محنت کا میدان انسانوں کے قلوب اور انہیں نور ایمان سے منور ومجلی کرنا اور ان تک اللہ کی توحید کو پھونچانا تھا۔اسی لئے آپ ﷺ کو ہمہ  وقت یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ روئے زمین پر بسنے والا ایک ایک انسان کیسے نفس وطاغوت کی بندگی سے نکل کر ایک اللہ واحدکی بندگی کرنے والا، کفر وشرک اور باطل ادیان کی ظلمتوں اور تنگیوں سے نکل کر ایمان واسلام اور توحید وسنت کی روشنی اور اس کی وسعتوں میں داخل ہوجانے والا اور جہنم کے راستہ سے منہ موڑکر جنت کے راستہ پر چلنے والا بن جائے۔

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ ﷺ نے اس عظیم‌ منصب  کی ادائیگی میں کوئی کسرباقی نہ رکھی ،جہاں بھی گئے  پوری فکرمندی ودرمندی سے اللہ کا پیغام اسکے بندوں تک محبت ،انسانیت ، حسن اخلاق اور کردارواطوار کی بلندیوں کے ساتھ پھونچاتے رہے، مکہ کی گلیاں ہوں یا کو ہ صفاکے دامن ، منٰی کی وادیاں اور گھاٹیوں ہوں یا عکاظ، ذوالمجاز اور مجنہ کے بازار، طائف کےریگزار ہوں یایثرب کے باغات ہر جگہ  ایک ایک انسان کو اللہ کے دین کی دعوت پیش  کی اور اس راہ میں جتنی مصیبتیں آئیں سب کو برداشت کرلیا ،اس راہ میں آپ کو  جھٹلایاگیا، تکذیب کی گئی ،تمسخر و مذاق اڑایا گیا،  طرح طرح کے طعنے دئے گئے، ڈرایا دھمکایا گیا، مارا ،پیٹا اور خون آلود کیاگیا ،جادوگر، کاھن، شاعر ،پاگل و مجنون کہاگیا، چہرہ انور پر تھوکا گیا، جسم اطھر اور پشت مبارک  پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑیاں  ڈالی گئیں ، گردن  میں چادر ڈال کر گھسیٹا گیا اور گلا گھونٹنے کی سعی نامسعود کی گئی ، سماجی بائیکاٹ تک  کیاگیا،  گھر کے دروازے پر خون اور گندگیاں پھیکی گئی، طائف کی گلیوں میں پتھر مار مار کر  قدم مبارک کو لہولہان کردیا گیا لیکن منصب نبوت کو پورا کرنے کے سلسلہ میں آپ ﷺ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی، نہ ہی آپ دل برداشتہ ہوئے اور نہ اس راہ میں صبر وشکیبائی  کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑا بلکہ پوری زندگی منصب نبوت کی ادائیگی میں انھیں حسین راہوں پر چلتے رہے ۔اور  اتنا کچھ ہونے کے باوجود آپ ان سے کبھی مایوس نہ ہوئے ۔

فکرمندی کا عالم یہ تھا کہ جب  ایک یہودی لڑکا جونبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ایک روز بیمار ہوگیا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے او سرہانے بیٹھ کر پوری دردمندی سے  فرمانے لگے کہ مسلمان ہوجاؤ۔ اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو وہیں موجود تھا۔ اس کے والد نے اس سے کہا کہ ابوالقاسم(یعنی محمد ﷺ)کی بات مان لو۔ چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ جب نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ ﷺ  نےیہ فرمایاکہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس بچے کوجہنم کی آگ سے بچالیا۔ ( صحیح بخاری/1356)۔

آپ کو لوگوں کی ہدایت کی اس قدر امید رہتی کہ آپ انہیں موت کے وقت بھی  دین کی دعوت دیتے اور کلمہ توحید سناتے ،چنانچہ جب چچاابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم ﷺ ان کے پاس بھی تشریف لے گئے اور  فرمایا: ’’اے چچاجان! لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہہ دیجئے تاکہ قیامت کے دن میں اس کے سبب آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر اس بات کاڈر نہ ہوتا کہ قریش یہ کہہ کر عار دلائیں گے کہ موت کی گھبراہٹ نے اس سے اس کلمہ کو کہلادیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمھاری آنکھوں کو ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر  یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ۔ ۔ ۔ الآیۃ) جس کا ترجمہ یہ ہے:’’ آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہے ۔(بخاری /3884)

بنی نوع انسان کی ہدایت کی یہ فکرمندی عام حالات تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اللہ تعالی  نے جب آپﷺ کو کفار و مشرکین سے مقابلہ کی اجازت مرحمت فرما دی تو جنگ کے حالات میں بھی آپ نے اس جذبہ کو مقدم رکھا۔ چنانچہ  جب تک کسی قوم کو لاالہ الااللہ کی دعوت نہ دے لیتے اس وقت تک ان سے جنگ نہ کرتے اور یہی ہدایت آپ نے اپنے صحابہ کرام اور متبعین  کو بھی دیا۔حضرت علی رض…