علامہ زماں، محقق دوراں شیخ محمد عزیر شمس مدنی مہبط وحی مکہ مکرمہ میں نم ناک آنکھوں سے سپردخاک:وصی اللہ مدنی

سدھارتھ نگر 18 اکتوبر(پریس ریلیز)ضلعی جمعیت اہلِ حدیث، سدھارتھ نگرکے ناظم اعلی مولانا وصی اللہ مدنی نے فقید ملت، بحث وتحقیق کے شہسوار اور گوہر نایاب علامہ محمد عزیز شمس مدنی کی رحلت، نمازِ جنازہ اور تدفین کی بابت سیاسی تقدیر کے ایڈیٹر کو بتایا کہ علمی و جماعتی حلقوں میں یہ اندوہ ناک اور جاں گسل خبر انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی اور سنی گئی کہ جماعت کے معروف عالم دین، ممتاز مولف و مترجم، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ وجامعہ ام القری کے فیض یافتہ اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے علوم ومعارف کے شناور، شمس العلماءعلامہ محمد عزیر شمس مدنی بتاریخ: 15/10/22 مطابق 18ربیع الاول 1444ھ بروزہفتہ مولد رسول مکہ مکرمہ اپنی رہائش گاہ عزیزیہ میں بعد نمازِ مغرب ایک طالب علم عزیز مکرم محمد عبدالرحمن قریشی،حیدرآبادی جن کا امسال دارالحدیث الخیریہ، مکہ میں داخلہ ہواتھا، وہ شیخ کی زیارت وعلمی استفادہ کی خاطر اپنے والد گرامی اور استاد محترم ڈاکٹر نبیل نصار کی معیت میں شیخ کے دولت کدے پر گئے تھے، آپ طلب علم کے آداب کے موضوع پر گفتگو کررہے تھے، ہارٹ آٹیک سے چند لمحہ پہلے علم حدیث کی اہمیت وضرورت اور اس کی افادیت پر فاضلانہ روشنی ڈال رہے تھے کہ کتب حدیث کی تعلیم وتدریس کے وقت دو بنیادی چیزوں کا اہتمام ضرورکرناچاہئی پہلی چیز علوم حدیث اور دوسری فوائد حدیث،داہنے ہاتھ سے فوائد حدیث کی طرف اشارہ کیا اور بائیں ہاتھ سے علوم حدیث،دوران درس وگفتگو آپ اپنے ہاتھوں کو بھی استعمال کرتے تھے جیسے فوائد حدیث کوبتانے کے لیے ہاتھ بڑھایا وقت موعودآپہنچا، آپ فوراً دائیں طرف فرش پرگرپڑے، ابتدائی طبی کوششوں کے باوجود آپ جانبر نہ ہوسکے اور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے بعد نماز عشاء سعودی عرب کے وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے آٹھ بجے شب اور ہندوستانی ٹائم کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے رات بقضائے الہی آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور آپ اس دارفانی سے دارباقی کی طرف روانہ ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون،تغمدہ اللہ بواسع رحمتہ ورضوانہ،شیخ عزیز ارشد رشید مکی مقیم حال مکہ کے بیان کے مطابق شیخ موصوف کے انتقال کی مصدقہ خبر اور ڈاکٹروں کی تصدیق ورپورٹ کے بعد وہاں پر موجودہر فرد فرط غم میں ڈوب گیا اور حواس باختہ ہوگیا، جو جہاں کھڑاتھا وہیں غموں سے نڈھال ہوکر بیٹھ گیا، ان کا اپنا بیان ہیکہ شیخ کی جدائی کا صدمہ اس قدر شدید تھا کہ میرے بدن میں رعشہ طاری ہوگیا، اس پریشان کن حالات میں مفتی حرم بقیہ السلف ڈاکٹر وصی اللہ عباس مدنی نے سب لوگوں کو سلف صالحین کا حوالہ دیتے ہوئے صبر وشکیبائی کی تلقین کی،موثر انداز میں نصحیت کی،ہمت دلائی، مفتی حرم کے ہونہار نورنظر برادرم انس اور ڈاکٹر عبدالوہاب مدنی رحمہ اللہ کے بیٹے ڈاکٹرعبدالرحمن کی قیادت ونگرانی میں ہاسپٹل کی ضروری کاروائیاں مکمل کرائی گئیں،ان عظیم سپوتوں اور مخلص اخوان واحباب کے ہمراہ ڈاکٹر ثناء اللہ صادق تیمی، شیخ ارشد رشید مکی،ڈاکٹر خالد انصاری،شیخ نمیر شمس،شیخ اسامہ،شیخ عبدالواحد، شیخ عبداللہ اور دیگر محبین سایہ کی طرح لگے رہے اور اپنی ہرممکن خدمت اور قربانی پیش کی،شیخ رحمہ اللہ کے اکلوتے فرزند عزیزم عبداللہ جوجرمن کے کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، ان کی آمداورانتظار میں نمازِ جنازہ میں قدرے تاخیر ہوئی،عزیزم عبداللہ سعودی فلائٹ سے رات 11بجیایئرپورٹ پہونچے اور تقریباً ڈیڑھ بجے شب مغسلۃ الموات پہنچے، شیخ کومغسلۃ المہ اجرین میں غسل اور کفن دیا گیا، اعلان کے مطابق آپ کی نماز جنازہ موت کے دوسرے دن بتاریخ 17/10/22برور سوموار نمازفجر کے معاًبعد حرم مکی کے امام وخطیب شیخ محترم عبداللہ عواد الجہنی کی امامت میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں عام مصلیان حرم مکی کے علاوہ مکہ،مدینہ،جدہ اور ریاض کیکبار مشائخ، علماء ، طلبہ اور سرکردہ شخصیات کی ایک بڑی تعداد شریک ہوکر ان کے لیے خلوص دل سے دعائے مغفرت کرتے ہوئے ان کے سیکڑوں عقیدت مندوں، روحانی اولادوں اور سوگ واروں نے6بج کر20منٹ پر اپنی نم ناک آنکھوں سے انھیں مقبرۃ المعلاۃ میں سپرد خاک کیا،بلاد توحید سعودی عرب میں مقیم ھند وپاک اورنیپال کے علماء وطلبہ نے بطورِ خاص شرکت کی سعادت حاصل کی اور ان کے بیٹوں و پسماندگان سے اظہار تعزیت کیاشیخ موصوف کی علمی ودعوتی شخصیت محتاج تعارف نہیں، آپ ملت وجماعت کے گراں مایہ سرمایہ تھے، ھمہ جہت اور ھمہ گیر صفات کے حامل خوش خصال انسان تھے، علم وعمل کے پیکر، خلیق وملنسار اور عمدہ سیرت وکردار کے مالک تھے، میدان تعلیم ودعوت اور علوم حدیث کے شہسوار تھے، اللہ نے آپ کے اندر بہت ساری خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں، آپ کے اندر جماعتی ومسلکی اور سلفی غیرت وحمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، پوری حیات مستعار سلف صالحین کے منہج ومسلک کو فروغ دینے، شرک وبدعات، باطل افکار ونظریات کی بیخ کنی میں کوشاں رہے۔آپ ہماری جماعت کے سنجیدہ خطیب، بالغ نظروفکر، پختہ ومشہور گہربارقلم کار،بینظیرمحقق ومدقق، ممتاز مربی ،ادیب اریب اور متحمل وخوش مزاج علماء ودعاۃمیں سے ایک تھے، آپ نے اپنی حیات مستعار کو انتہائی خاموشی اور رضائے الہی کی خاطربیش قیمت مخطوطات کی علمی تحقیق، دعوت وارشاد،قدیم نفع بخش کتابوں کی تسہیل وتہذیب، تعریب، تصنیف و تالیف اور عربی کتب کو اردو میں ڈھالنے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔آپ تشنگان علوم دینیہ اور معماران قوم وملت کی خوب سے خوب تر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے، ارباب قلم وقرطاس کی خواہش وطلب پر ان کی تالیف کردہ کتابوں پر نظرثانی، تصحیح اور تقریظ سپرد قلم کرکے ان کی ہمت افزائی کیا کرتیتھے جیسا کہ جماعت کے جوان رعنا ذی علم شخصیت اور سیال قلم کے مالک شیخ عزیز راشدسلفی مبارک پوری نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ میرے علمی کاموں کی تحسین کرتے، مبارک دیتے اور علمی تعاون اور رہنمائی فرمایا کرتے تھے، ان سے سچی اور حقیقی عقیدت و محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے علمی اثاثوں کی حفاظت کی جائے، اسے منظر عام پر لانے کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ھم ضلعی جمعیت اھل حدیت ،سدھارتھ نگر کے تمام عہدے داران، ذمہ داران مع ارکان عاملہ وشوری آپ کے غمزدہ اھل وعیال اور رفقاء واحباب کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور لاحقہ غم میں برابر کے شریک ہیں، مرکز السنہ، روپندیہی، نیپال کے صدر شیخ محمد نسیم مدنی نے کہاکہ* "علامہ موصوف رحمہ اللہ بلند پایہ محقق، علامہ ابن تیمیہ وابن القیم کے عقائد وعلوم کے شناور، کئی زبانوں کے ماہر، انشاء پرداز، بہت بڑے عالم دین، دانشور، مفکر تھے.* موصوف جماعت اہل حدیث کے غیور سپوت اور سلفی دعوت کی آبرو تھے، منہج سلف سے پوری آگاہی رکھنے کے ساتھ اس پر کار بند بھی تھے تاہم وہ اسلام کی ہمہ جہتی کو دیکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل میں دوسرے مسالک سے الجھنا پسند نہیں فرماتے تھے، ان مسائل میں وہ مثبت پہلو اپنانے کے قائل تھے، منفی پہلو سے خود اعراض کرتے تھے اور اسی پر رہنے کی تلقین بھی کرتے تھے. موصوف منہج سلف کو عقیدہ کے علاوہ اعمال واخلاق اور خشیت الہی تمام امور میں دیکھنا چاہتے تھے اور خود ان پر کار بند تھے۔ موصوف اتنے بڑے عالم، محقق،، ماہر علوم وفنون، پاسبان تراث سلف، ماہر مخطوطات ہونے کے باوصف ایک سادہ لوح عالم تھے، آپ کی کسی ادا سے تکبر، تعلی، ہم چنیں دیگرے نیست، انا میں، حب الظھور، ابراز الشخصیہ کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا ہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے کو ایک طالب علم اور علماء کا قدردان کے طور پر پیش کیا. میں سمجھتا ہوں کہ موصوف رحمہ اللہ کے اندر خشیت الہی کا وافر حصہ پایا جاتا تھا۔اللہ آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور آخرت کے تمام مراحل آسان فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے. آمین۔عزیز گرامی شیخ ارشد رشید مکی نے کہا کہ " ہماریشیخ محترم علم کے بحر بیکراں تھے، ہر موضوع پر سیرحاصل گفتگو فرمایا کرتے تھے، طالبان علوم نبوت کو اپنے فکر ونظراورعلوم سے فیض یاب کرتے تھے، علمی وادبی اور تحقیقی وسعت و گہرائی کے باوجود آپ انتہائی خلیق وملنسار، متواضع اور سنجیدہ انسان تھے، تشنگانِ علوم دینیہ وشیدائیان کتاب وسنت کے لیے اپنے گھر کا دروازہ ہمشہ کھلا رکھتے تھے، شیخ رحمہ اللہ کی وفات کے دودن پیشترایک اہم علمی موضوع پر ان سے میر ی بات ہوئی تھی، انھوں نے دوتین دن کے بعد مجھے اس موضوع کاخاکہ تیار کرنے کو کہا تھا لیکن افسوس ہمارا خواب ادھورا رہ گیا اور وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ناظم جمعیت نیآپ تمام احباب جماعت وجمعیت اورقارئین سے گزارش کی ہے کہ شیخ موصوف رحمہ اللہ کی مغفرت اور رفع درجات کے لئے خلوص وللہیت سے دعا کریں، اللہ جماعت وجمعیت کو ان کا نعم البدل عطا کرے ،ان کے جملہ حسنات، علمی، دینی ودعوتی ،صحافتی ،جماعتی ومسلکی ،تنظیمی ،سماجی اور رفاھی بیش بہا خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، بشری لغزشوں کو درگذر کرتے ہوئے جنت الفردوس کا مکین بنائے اور تمام لواحقین وپسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے، (آمین)