سعودی عرب نے ’اوپیک پلس‘ کے فیصلے کے بعد امریکی تنقید یکسر مسترد کردی

سعودی عرب نے ’اوپیک پلس‘ کے فیصلے کے بعد امریکی تنقید یکسر مسترد کردی

ریاض،13اکتوبر( ایجنسیاں) سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ "مملکت ’اوپیک +‘ کے فیصلے کو بین الاقوامی تنازعات میں جانب دارانہ قرار دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے بیانات کو مسترد کرتی ہے۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ "اوپیک +‘ کا فیصلہ متفقہ طور پر اورخالصتا اقتصادی نقطہ نظر سے لیا گیا تھا جس کا مقصد مارکیٹوں میں طلب اور رسد کے توازن کو مدنظر رکھنا ہے اور اتار چڑھاؤ کو محدود کرتے ہوئے قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا ہے۔"سعودی عرب نے بین الاقوامی تنازعات میں اس فیصلے کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے پرمبنی بیانات کو بھی مکمل طور پر مسترد کر دیا۔سعودی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ "مملکت امریکا کے خلاف سیاسی مقاصد کی بنیاد پر اوپیک + کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ سعودی عرب 5 اکتوبر کو اوپیک + کے فیصلے کے بعد مملکت پر تنقید کرنے والے بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔سعودی عرب نے ’اوپیک پلس‘ کے حالیہ فیصلے پر آنے والی امریکی تنقید کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں خلاف حقیقیت قرار دیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب پر تنقید کرنے والے بیانات حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور اوپیک کے فیصلے کو اس کے خالصتاً اقتصادی فریم ورک سے باہر پیش کرنے کی کوشش پر مبنی ہیں۔"سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ مملکت نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنی مشاورت کے دوران واضح کیا کہ پیداوار میں کمی کے فیصلے کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی تجویزمنفی اقتصادی نتائج کا باعث ہوگی۔سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا ہے کہ یوکرین میں کشیدگی یورپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ الجبیر نے "سی این این" کو دیے گئے انٹرویو میں مزید کہا کہ سعودی عرب نے روس اور یوکرین کے ساتھ رابطے کے چینلز کو برقرار رکھا ہے جس میں دونوں فریقین کو مذاکرات کی طرف لانے کے طریقوں کی تلاش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔الجبیر نے زور دے کر کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہوتا اگر مملکت غیر جانبدار ہوتی۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب تیل پر سیاست نہیں کرتا جو کہ کوئی ہتھیار نہیں ہے بلکہ ایک ایسی شے ہے جس کا مقصد استحکام ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب کا دفاعی ہتھیاروں کا حصول اس کے مفادات، امریکا کے مفادات اور خطے میں سلامتی کے لیے ہے۔