سعودی تیل کی طاقت کا کھیل: امریکہ سے تعلقات کا نقصان کر سکتا ہے توڑ نہیں سکتا!

سعودی تیل کی طاقت کا کھیل: امریکہ سے تعلقات کا نقصان کر سکتا ہے توڑ نہیں سکتا!

واشنگٹن،14اکتوبر( ایجنسیاں) امریکہ یقینا محمد بن سلمان کا پارٹنر ہے۔ سعودی قیادت اس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رکھنا چاہتی ہے مگر یہ نہیں چاہتی کہ وہ اپنے ملک کو امریکی سیاستدانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ یہ بات شاہی دیوان سے بہت قربت رکھنے والے علی شہابی نے کہی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان میں سے کوئی ایک بھی تیل کے سلسلے میں جاری جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اس تیل تنازع سے ان دونوں کے ممالک کے سلامتی سے جڑے اتحاد کو نقصان ہو رہا ہے مگر یہ تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ اس وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں۔ دونوں ملکوں سے جڑے ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے اور مبصرین کا بھی یہی خیال ہے۔اوپیک پلس گروپ کے عملی سربراہ ہونے کے ناطے سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں بیس فیصد کٹوتی کر کے امریکہ کی ناراضی اور غم وغصے کو دعوت دے دی ہے۔ امریکی انتطامیہ کی خواہش تھی کہ اوپیک پلس امریکی وسط مدتی انتخاب کے حوالے سے اپنا ہاتھ ایک ماہ کے لیے روکے رکھے۔لیکن اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے اعلان سے تیل کی قیمیتیں اوپر چلی گئی ہیں۔ اس لیے منگل کے روز جو بائیڈن نے یہ کہا 'سعودی عرب کو اس چیز کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ' یقینا اس بیان سے امریکہ اور ریاض کے درمیان معاہدات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے اوپیک پلس کی طرف سے اعلان کے بعد کئی امریکی سینیٹرز نے وائٹ ہاوس کے ساتھ رابطہ کیا اور زور دیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تمام تر تعاون کو منجمد کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ اسلحے کی فراہمی بھی روک دی جائے۔لیکن سعودی عرب نے کسی بھی آمرانہ انداز اور 'ڈکٹیشن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔' جیسا کہ سعودی عرب کی طرف سے جمعرات کے روز ایک ٹوئٹ میں کہہ دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے اس ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا 'مملکت سعودی عرب عالمی معیشت کو تیل کی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لیے کام کر رہا ہے۔'وائٹ ہاؤس کے ایک سامنے آنے والے رد عمل میں ترجمان جان کربی معمول سے ہٹ کر اس ٹکراؤ کے بارے میں براہ راست اور سیدھی بات کہی۔ 'سعودی وزارت خارجہ گھما پھرا کر بات کر سکتی ہے لیکن حقائق بڑے سادہ ہیں۔‘کیونکہ ایک اور ملک نے، جو اسی تیل کے بزنس سے متعلق ہے، امریکہ کو غیر رسمی طور پر بتادیا ہے کہ وہ سعودی عرب کی جاری کردہ ہدایت کی حمایت پر مجبور ہے۔'خلیجی ممالک میں موجود تجزیہ کاروں کے بقول اگرچہ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے بارے میں قدرے سخت انداز میں بیان آئے ہیں لیکن دونوں کے لیے ایک دوسرے کے خلاف عملی اقدامات میں رکاوٹیں ہیں۔امریکہ نہیں چاہے گا کہ مملکت سعودی عرب کو سلامتی کے میدان میں کوئی مشکل آئے۔ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہتا جس کی قیمت یہ ہو کہ سعودی عرب، چین اور روس کی قربت کی طرف چلا جائے۔اسی طرح ریاض بھی آگاہ ہے کہ وہ اپنے دفاعی اسلحے کو آسانی سے ہمہ رنگ نہیں بنا سکتا کیونکہ اس کا جنگی ساز وسامان اور تربیت کا بہت زیادہ معاملہ امریکہ کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔ کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات 1945 سے چلے آ رہے ہیں۔ابھی سعودی امریکن خلیج جب وسیع ہو رہی ہے، سعودی ولی عہد اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر اپنے ملک کی عظمت اور اپنی اہمیت کا پرچم لے کر چل رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی خواہش کیا ہے کہ امریکی جو بائیڈن انتظامیہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے جو پوزیشن لے چکی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔محمد بن سلمان یہ یقین رکھتے ہیں امریکی، سعودی عرب کو سزا دینے کی حد تک نہیں جا سکتے۔ اس لیے یہ ایک جنگ ہے جس میں مرضی، خود مختاری اور فیصلہ سازی کے حوالے سے ہے۔'ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'سعودی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کی طرف سے محدود نوعیت کی کارروائی کو سہار سکتے ہیں۔' تاہم سعودی حکومت کے میڈیا آفس نے فوری طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کو عالمی سطح پر روس کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے سے کچھ سہولت سی مل گئی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک افراط زر کے بہت اوپر چلے جانے کی وجہ سے سعودی عرب سے مزید تیل مانگنے کے راستے پر ہیں۔علی شہابی کا کہنا ہے کہ 'امریکہ کی کوشش تھی کہ وہ شہزادہ محمد کو اپنے قریب کرے اور اس کے ساتھ مل کر چلے۔ سعودی ولی عہد بھی امریکہ کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر وہ واشنگٹن کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ سعودی مملکت امریکی سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائے۔ 'اس لیے شہزادہ محمد نے پہلے دن سے امریکہ کو یہ اشارے دیے ہیں کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ شاندار معاہدوں کا خواش مند ہے۔ لیکن امریکی سیاستدان چار سال پہلے ہونے والی ایک بڑی غلطی جو جمال خاشقجی کے حوالے سے ہوئی تھی اسی پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ''محمد بن سلمان مملکت سعودی عرب کے عملی معنوں میں حکمران ہیں۔ سعودی عرب کی تیل کے حوالے سے اہمیت کو سمجھنے والے اور ایران کے سلسلے میں ایک بامعنی وزن رکھنے والی قوت کے طور پر بھی اپنی اور ملک کی حیثیت سے آگاہ ہیں۔ اس لیے امریکی تنقید سے آسانی سے معاملہ کر سکتے ہیں۔ 'سعودی عرب کے اہم لوگوں نے اس چیز کو بیان کیا ہے کہ اوپیک کا فیصلہ امریکی مخالفت میں نہیں کیا گیا بلکہ تیل کی منڈی کی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے بھی اسی امر کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے کہ سعودی عرب، امریکہ کے درمیان سکیورٹی اور فوجی تعاون کے دو طرفہ امور خطے کی سالمیت کے حوالے سے اہم ہے۔ بلا شبہ اس سے امریکی دفاعی صنعت کو بھی فائدہ ہے۔امریکی ترجمان برائے دفتر خارجہ نیڈ پرائس سے جب بدھ کے روز یہ پوچھا گیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے؟ تو ترجمان کا کہنا تھا 'یقینا ہم ایران کی طرف سے خطروں سے اپنی آنکھ بند نہیں کریں گے۔ جو صرف خطے کے لیے بلکہ کسی حد تک خطے سے باہر بھی ہے۔مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر الزبتھ کینڈل نے اس بارے میں کہا 'یہ ممکن ہے ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ روک دے لیکن چیلنج یہ ہے کہ امریکہ کو تیل کی خود کو فراہمی جاری رکھنے کے لیے خطے میں تیل فراہمی کے ڈھانچے کی حفاظت کو بھی ممکن بنائے رکھے۔ نیز ریاض کو روس اور چین کے ساتھ معاہدات کی طرف جانے سے روکے رکھے۔ اس میں خود امریکہ کے سٹریٹجک اہمیت کے مفادات کا معاملہ ہے۔