ملک میں رائج "ادھرم" کا خاتمه کرنے اور سماج میں "دھرم" کا احیاء کرنے کے لیے امن و اخوت، عدل و مُحبّت اور وحدت و ایثار کا رویہ اختیار کرنا ہوگا: کرانتی کاری جین گرو دیو پوجیا وراگ ساگر جی مہاراج
ممبئی :13 اکتوبر (پریس ریلیز )ہمارے مشاہدے میں یہ بات رہی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے ملک کو اندرونی طور پر نفرت اور تعصب کے انتہا پسندانہ جذبات کے ذریعے تباہ کرنے کی منظّم کوشش کی جا رہی ہے، جسے وہ لوگ فروغ دے رہے ہیں جو اپنے مذموم مقاصد اور چھوٹی موٹی سیاست کے لیے ہماری قوم کے سماجی تانے بانے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے زیادہ خوفناک اور متضاد بات یہ ہے کہ یہ ساری منفیت دھرم کے نام پر پھیلائی جا رہی ہے، جبکہ دھرم کے نام پر جو بھی نفرت پھیلائی جا رہی ہے، وہ دھرم کے بالکل خلاف ہے۔ یہ دھرم تو قطعی نہیں لیکن ادھرم ضرور ہے.
آج جس چیز کی ہمیں فوری طور پر ضرورت ہے وہ اس تعصب اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کا تریاق ہے جو عوام کو ادھرم پر عمل کرنے کے لیے دھوکہ دے رہا ہے اور یہ جھوٹا یقین دلا رہا ہے کہ وہ دراصل دھرم کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور یہ تریاق آپ جیسے ہماری قوم کے مذہبی دانشور اور علمائے کرام ہی فراہم کر سکتے ہیں۔آج اس مقصد کے تحت اپنے ملک کے تمام بڑے مذہبی فرقوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک پین فیتھ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شاکر شیخ (سیکریٹری جماعت اسلامی ہند ممبئی شہر) نے سیمینار کی غرض و غایت پیش کی جس میں اُنہوں نے کہا کہ یہ پورا خاندان ایک خالق کا تیار کردہ ہے اور ہم سب کو اسے مل کر خوب صورت بنانے کی کوشش کرنا ہے ۔دھرم کا مطلب "راستہ" ہوتا ہے جو انسان کو غرور سے نکال کر حق اور سچائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ تپسوینی برہما کماری (ویلے پارلے) نے اپنے بیان میں کہا کہ دھرم کا مطلب "دھارنا" یعنی کے نفاذ ، عمل آوری۔ ہم سب اپنے آپ پر غور کریں کہ ہم اپنی جانب سے لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں، کیا ہم اپنی زندگی میں کسی کو دکھ نہیں دیتے یا اگر دکھ نہیں دیتے ہیں تو کیا کسی کو سکھ دیتے ہیں ۔ دھرم پر اگر عمل کرنا ہے تو اندر سے اچھا بننا، اپنے من کو صحیح راہ دینا بے حد ضروری ہے۔ڈاکٹر سلیم خان (نائب صدر، جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر) کے مطابق دھرم ایک ایسے قانون کا نفاذ ہے جس کے ذریعے سماج سے نے انصافی کو مٹا کر اُن کو اُن کے حقوق دلانا ضروری ہوتا ہے۔ کسی کو دھرم کے بدنام کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ دھرم گروؤں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اُن کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ دیگر ادهرم گروؤں کا بھی حوالہ دیا کہ اب لوگوں کو علی الاعلان نفرت اور سماج کو بگاڑنے کے تحت بیدار کیا جا رہا ہے۔جس کی ایک مثال دھرم گرو نول کشور بھی ہے جو دھڑلے سے سماج کو بانٹنے کی بات کرتا ہے۔

کرانتی کاری جین گرو دیو پوجیا وراگ ساگر جی مہاراج(شری آدیشور جین مندر پا ئےدھونی) ہم کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں،لیکن انسانیت کی بنیاد پر ہمیں اُن سے تکریم سے پیش آنا بے حد ضروری ہے۔ اس دھرتی پر امن اور شانتی سے زندگی گزارنا ہی اصل پیغام ہے جس پر سب کو ایک جٹ ہو کر کوشش کرنا چاہیے۔سب سے پہلے ہم ایک اچھے انسان بنیں،اور اس انسانیت کی تعلیم کو عام کرتے جائیں۔ پھر بدنت شری شیل بودی (پوائی آشرم) نے سب سے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ آج بہت بری طرح سے پریشان ہیں، مختلف مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ خود غرضی اور ایک دوسرے سے غفلت میں بری طریقے سے مبتلا ہیں اور یہ سب کام دھرم کے خلاف ہم انجام دے رہے ہیں۔ جب دھرم ہمیں جینے کی راہ سکھاتا ہے تو ہم اُسی راہ کو خراب اور گندہ بنانے کے درپے ہوئے جا رہے ہیں۔ عباس رضوی (شیعہ عالم دین) نے واضح حکمتِ عملی اختیار کرنے اور برائی کو اچھائی سے مٹانے کی جانب رہنمائی کی۔
ڈاکٹر مكندا ما دھو داس (نائب صدر Iskcon ممبئی) :- سب سے پہلے دھرم اور ادھرم دونوں کے مطلب سے واقف ہونا ضروری ہے۔ دھرم ایک "فرض" کو کہا جاتا ہے اور یہ ہمیشہ اپنی فطری حالت میں ہوتا ہے، اِس میں کوئی لیپا پوتی يا ملاوٹ نہیں ہوتی۔ لہٰذا خود غرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وُسعت القلبی کا مظاہرہ کرنا دھرم کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔اس پر عمل کرنے کے لیے ایثار و قربانی کا رول انجام دینا جزولاینفک ہے۔بابا ستیا نام داس (اُداسین آشرم گورے گاؤں) ہم سب ایک خُدا کی سنتان ہیں لیکن ہم آپسی نفرت سے خود کو کوسوں دور لئے جا رہے ہیں۔ دھرم جو اہنسا کی بات کرتے ہی ہیں ہمارا ملک بھی جو اہنسا کی سب سے زیادہ تعلیم دیتا ہے، لہٰذا یہ ہم سب کی ذمّہ ہے کہ سماج میں رہتے ہوئے ایکتا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی کا خاتمه کیا جا سکتا ہے۔ بار بار ملتے رہیں اور نفرت کے خاتمے کے لیے کوششیں کرتے رہیں۔روی کمار سٹیفن کے مطابق دھرم پر عمل پیرا رہنے کے لئے ہمیشہ متحرک رہنا ضروری ہے۔ خود کو اپنے خالق کی اطاعت میں لگا دینا انتہائی اہم پہلو ہے۔ اگر میں بڑے بڑے کام کرلوں لیکن اگر پیار نہ بانٹ سکوں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔پریم ہمیشہ ستیہ اور دھیرج کی بات کرتا ہے۔
اگلی گفتگو میں مولانا انیس اشرفی نے کہا کہ آج انسانیت اور شرافت پیچھے چلی گئی ہے اور اُس کی جگہ ادھرم نے لے لی ہے۔ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دیتے ہوئے وضاحت کی کہ پیار ، محبت ، انسیت کے حکیمانہ انداز کو اختیار کرتے ہوئے اس بگڑتے سماج کو بھلائی کی طرف لانے کی پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔ اختتامی کلیدی خطاب میں مولانا محمود دریابادی (جنرل سیکریٹری آل انڈیا علماء کونسل) نے کہا کہ ہمیں بستی بستي قریہ قریہ علاقوں میں جا جا کر لوگوں کی اصلاح کرنے اور اُن کی ذہن سازی کرنے کا کام انجام دیں گے۔ آج کی یہ نشست آنے والے وقت میں بڑے انقلاب کی نقیب ہوگی۔
اختتام پر تمام نے پُر عزم رہتے ہوئے طویل المدت وقت تک اس اہم کام کی انجام دہی کی یقین دہانی کارروائی۔ سیمینار میں مہمانان کا شکریہ فرید شیخ(امن کمیٹی) نے پیش کیا۔شاکر شیخ (امن و انصاف مورچہ) نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔